طالب علم کہانی کیسے لکھے؟

September 15, 2019

اردو افسانے کو بین الاقوامی ادب میں اعلیٰ مقام پر فائز کرنے والے زمانہ ساز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ کیسے لکھتے ہیں تو انہوں نے کہا، ’’کاغذ پینسل قلم یا ٹائپ رائٹر لیتا ہوں اور لکھنا شروع کردیتا ہوں۔ وہ ادیب ہی کیا جو یہ سوچے کہ کہانی کیسے لکھتے ہیں‘‘۔ کہانی پڑھنا اور بات ہے لیکن نئی کہانی لکھنا کیسے ممکن ہوتا ہے؟ عدم سے وجود پذیر ہونے والی شاعری و کہانی اور نثر کیسے جنم لیتی ہے؟ اس کا سادہ جواب وہ والہانہ مطالعہ ہے، جو ادیب زندگی بھر کرتے رہتے ہیں۔ کہانی کے ابتدائیہ، درمیان اور اختتامیے تک ان کے ذہن میں کردار اور پسِ منظر کے حوالے سے کئی سوالات اُٹھ چکے ہوتے ہیں اور وہ کہانی کے وسط تک جان لیتے ہیں کہ ممکنہ طور پر اختتام کیا ہوگا۔

کہانی کے اجزا

حقیقی واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر، افسردہ سانحے کی خبر کے ردعمل، کہانی پڑھتے ہوئے اس کے انجام کو دوسرے زاویے سے بیان کرنے کی خواہش یا پھر کسی تاریخی واقعے کو موضوع بنانے کی سعی سے کہانی پیدا ہوتی ہے۔ اس کا آغاز و انجام پانچ بنیادی اجزا پر مبنی ہے، جن میں کردار، سیٹنگ، پلاٹ، تنازعہ (Conflict) اور حل (resolution) شامل ہیں۔ کردار میں ادیب کہانی کے ہر ایک فرد کا تعارف، نفسیات، حلیہ اور مزاج بیان کرتا ہے۔ ہیرو اور ولن کے روپ میں نیکی و بدی کی نمائندگی کرتا ہے۔ المیہ کرداروں میں موت کو اہم جزو کے طور پر شامل کیا جاتا ہے،تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں اس کردار کے ساتھ وابستہ ہوجائیں۔ شیکسپیئر کے المیہ ڈراموں کی اثر پذیری بھی اسی کا حصہ ہے۔ ’سیٹنگ‘ اس ایکشن کی لوکیشن ہے، جس ماحول میں کردار زندگی گزارتے ہیں۔ ماحول کو سحر انگیز بنانے کے لئے فنٹسی سے بھی کام لیا جاتا ہے۔’پلاٹ‘ اصل کہانی کا مکمل خاکہ ہے جس کا آغاز، درمیان اور اختتام واضح ہونا چاہئے۔ اس میں سسپنس اور ایڈونچر کے وہ تمام عوامل شامل ہوں، جو قاری کو نئے سے نئے واقعات میں مشغول رکھتے ہوئے آخر تک اس تجسس میں مبتلا رکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔ ڈراما سیریل اور سیریز میں بھی ہر قسط میں اس بات کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے کہ اختتام پر کچھ سوالات ادھورے رہ جائیں۔ ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی ’تنازعہ‘ یا معاملہ جنم لیتا ہے، جس سے نکلنے کے لئے کردار اپنی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کوشش میں بہت زیادہ جوش و خروش پیدا ہوجاتا ہے، جسے ’حل‘ یعنی کلائمکس کی طرف لے جایا جاتا ہے۔یہ آخری نقطہ ہے جب کہانی اپنے فطری اختتام کو پہنچتی ہے۔ اسےکہانی کی’تھیم ‘بھی کہتے ہیں۔ پڑھنے والے کی دلچسپی کا انحصار پہلے جملے سے بھی ہوتا ہے ۔ عظیم ترین ناول اپنے ابتدائی جملوں سے مشہور ہوئے۔

ایک نشست میں کہانی مکمل کریں

جب آپ افسانہ یا کہانی تحریر کرتے ہیں تو کردار، پس منظر، پلاٹ، تنازعہ اور تھیم خیالات کے مرغولے کی مانند ذہن میں اترتے جاتے ہیں۔ اس لئے ان کرداروں کو اپنی نفسیات کے مطابق ڈھالنے کے لئے آپ کی انتہائی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ خیالات کی رُو کا ساتھ دیتے ہوئے پانی کے بہتے دھارے کی طرح قلم یا کی بورڈ پر انگلیوں کو چلاتے جائیں۔ سوچ کو کردار کی حرکتوں پر مرکوز رکھتے ہوئے کہانی کو تیزی سے مکمل کرلیں۔ ناول لکھنے کے لئے تین ماہ یا سال کا وقت مقرر کرتے ہوئے اسے اپنی روٹین کا حصہ بنالیں ۔ دلچسپی کے لئے آپ کا سپر ہیرو اور ولن سسپنس اور ڈرامے سے بھرپور ہونے چاہئیں۔ مکالمے جاندار ہونے چاہئیں، تیز دھار میں لکھی تحریر کا مسودہ مکمل ہوجائے تو اپنی ہی کہانی کو ایک سخت ناقد کی نظر سے دیکھیں۔ آپ کو ایڈیٹر والی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہر کرتے ہوئے اپنی ہی کہانی کو مسترد کرنے کی جرأت پیدا کرنی ہوگی۔ دوسرا ڈرافٹ، پہلے ڈرافٹ سے بہتر ہوگا۔ دوسرا مسودہ بھی ناقدانہ ذہن کو نہ بھائے تو تیسرے مسودے پر کام شروع کردیں۔

مطالعہ و تحریر کو زندگی کا حصہ بنائیں

صبح سے دوپہر اور شام سے رات یونہی ہوجاتی ہے، ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ وقت کیسے سرک گیا۔ کوشش کریں کہ آپ مطالعہ و تحریر کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنائیں۔ آپ کہانی لکھنے کا جو بھی انداز اپنائیں، پھر اس کا معمول بنالیں۔ اس طرح کم وقت میں آپ زیادہ لکھ سکتے ہیں مگر کوشش کریں کہ معیار کا پیمانہ نہ چھلکے۔

مطالعہ و مشاہدہ

کہانی لکھنے کے لئے مطالعہ اور مشاہدہ لازمی ہیں۔ مطالعے کی یہ طلسمی خاصیت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جتنا زیادہ مطالعہ کیا جاتا ہے، اتنے زیادہ الفاظ اور زندگی کے نئے زاویے نکھر کر سامنے آتے ہیں۔ ہم سبھی اپنی زندگیاں جیتے ہیں لیکن کہانی وہ کھڑکی ہے جہاں سے ہمیں دوسرے آدم و حوا کی زندگیوں کے بارے میں آگاہی ملتی ہے۔ کہانی اور قصے ہمیں زندگی کے منفرد آہنگ سے ہم کنار کرتے ہیں۔اس لیے مطالعے اور مشاہدے کے دوران آپ کی گہری نظر ان بھیگی پلکوں کو پہچان لے گی،جو کسی دکھ کی کسک لیے ہونٹ بھینچے ہوئے ملتی ہے۔ انسانی جذبات کو جتنے حساس دل سے دیکھیں گے اور ردِ عمل دکھائیں گے، اتنا ہی دل لکھنے کی طرف مائل ہوگا اور آپ کا شمار بھی نامور ادیبوں میں ہونے لگے گا۔