چین سے آتی ہوئی روشنی

September 15, 2019

کچھ عرصہ پہلے بھی میں نے اپنے بزنس مین دوست امجدچوہدری کا ذکر کیا تھا جو چین سے برطانیہ میں مختلف چیزیں امپورٹ کرتا ہے۔وہ ایک بار جب کاشغر سے آیا تو کہنے لگا۔میں وہاں جس چینی کا مہمان تھا۔وہ مجھے کچھ دکھانے کےلئےشہر سے باہر تقریباً تیس کلو میٹر دور لے گیا۔جہاں کام جاری تھا۔چاردیواری تعمیر ہورہی تھی۔ بتانے لگاکہ بہت بڑا ویئر ہائوس بنا رہا ہوں۔یہاں سے بیک وقت سو ٹرالروں پر سامان لوڈ کیا جا سکے گا۔میں نے حیرت سے پوچھا’’شہرسے اتنی دور۔ یہاں کس نے آنا ہے۔یہ جگہ کاروبار کیلئے قطعاً مناسب نہیں لگتی ‘‘۔ وہ بازو سے پکڑکر مجھےروڈ پر لے آیا اورجاتی ہوئی سڑک کی طرف اشارہ کر کے بولا ’’یہ سڑک سیدھی گوادر جارہی ہےــ‘‘۔میرے دوست کو کاشغر بہت پسند آیا تھا۔اب تو اس نے کاشغر کے پرانے شہرمیں اپنے رہنے کےلئے ایک مستقل فلیٹ لے رکھا ہے۔ بقول اس کے کاشغر کا پرانا شہراسلامی تہذیب و تمدن کا عکاس ہے۔ طرز ِ تعمیر سےلے کر لوگوں کے رویوں تک میںاسلامی ادوار کی جھلکیاں ملتی ہیں۔کاشغر آج پھر اس لئے یاد آیا کہ رات بایزید کانسی سے ملاقات ہوئی۔وہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا پاکستان میں نمائندہ ہے۔ابھی دو دن پہلے کاشغر سے واپس آیا ہے۔کاشغر کے بارے میں اس کی گفتگو میرےلئے عجیب تھی۔بات یہاں سے شروع ہوئی جب اس نے کہا کہ چینی حکومت مسلمانوں کے لئے مساجد اور مدارس کی تعمیر میں اہم کردارادا کررہی ہے۔دراصل گزشتہ ہفتے بایزید کانسی کے ساتھ حکومت ِ چین اور چینی سفارت خانے کی دعوت پر گورنر بلوچستان امان اللہ خان کی سربراہی میں بلوچستان کے اہم قبائلی عمائدین کاایک وفد چین کے دورے پر گیا تھا۔ان میں وہ قبائل بھی موجود تھے جنہوں نے ماضی میں سی پیک کی مخالفت کی تھی۔حکومت چین نے بلوچستان کے اس وفد کو چین کے صوبے سنکیانگ کےدارالحکومت اُرمچی اور کاشغر شہر میں پانچ دنوں کے لئےمہمان ٹھہرایا۔صوبہ سنکیانگ جغرافیائی لحاظ سے صوبہ بلوچستان سے ملتا جلتا علاقہ ہے۔رقبے کے لحاظ سےجس طرح بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے بالکل اسی طرح سنکیانگ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔جیسے مسائل بلوچستان میں ہیں بالکل ویسے ہی چین کوسنکیانگ میں درپیش ہیں۔دہشت گردی، غربت اور تعلیمی پسماندگی جیسےمسائل وہاں بھی خاصے ہیں۔اس وفد نے وہاں ہوتی ترقی کے مناظر بڑی حیرت سے دیکھے۔کاشغر وہ شہر ہے جہاں سے پاک چین راہداری کا آغاز ہورہا ہے اوریہ وفد وہاں سے تھا جہاں اس راہداری نے مکمل ہوجانا ہے۔

بقول اُس کے صوبہ سنکیانگ میں جو کام چینی حکومت نے غربت کے خاتمے کےلئے شروع کئے ہوئے ہیں وہ واقعی قابل داد ہیں۔ وہاں عورتوں کو جس طرح کام پر لگایا ہے۔اس کی مثال نہیں ملتی۔ تعلیم کے حوالے سے بھی وہاں حیران کن ترقی ہورہی ہے۔مسلمانوں کے حوالے سے بھی چینی حکومت کا کردار وفد کےلئے تعجب خیز رہا۔وہاں ہر مذہب کے لوگوں کو پوری مذہبی آزادی دی گئی ہے انہیں ان کی ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔کاشغر کو دوبارہ کا شغر بنایا جارہا ہے۔ کاش کا مطلب ہوتا ہے۔ ’’رنگین ‘‘ اور ’’ غر ‘‘ گھر کو کہتے ہیں۔یعنی چینی حکومت کاشغر کودوبارہ’’ رنگین گھر ‘‘ میں بدل رہی ہے۔چین اپنے صوبے سنکیانگ پر ہر سال ساٹھ بلین ڈالر خرچ کرتا ہے۔بلوچستان کے قبائلی رہنمائوں نے کہا کہ جس طرح صوبے سنکیانگ نے ترقی کی ہے اسی طرح ہم بھی بلوچستان میں ترقی دیکھنا چاہتے ہیں اور جس طرح چین کی مرکزی حکومت نے وہاں دہشت گردی کا خاتمہ کیا ہے ہم بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان کی مرکزی حکومت اسی طرح بلوچستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کرے۔آج سنکیانگ امن کا گہوارہ ہے اگرچہ بلوچستان میں بھی آج حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں مگر انہیں اور بہتر کرنے کی ضرورت ہےصوبہ سنکیانگ کے حوالے سے مغرب نے ہمیشہ منفی پروپیگنڈا کیا ہے جوسراسر غلط ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی مغرب کےلئے ہمیشہ تکلیف دہ رہی ہے مگر دنیا میں صرف چین نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کا سچا دوست ہے۔اس وقت کشمیر کے مسئلے پر بھی صرف چین ہے جو مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے جیسے کھڑے ہونے کا حق ہوتا ہے۔

سی پیک پر کام تیزی سے جاری ہے۔ گوادر اسمارٹ پورٹ سٹی کے ماسٹر پلان کی منظوری دی جا چکی ہے۔یہ بین الاقوامی معیار کا ایک تجارتی شہر ہوگا۔بندر گاہ تیار ہوچکی ہے اس بندرگاہ کی گہرائی 14.5 میٹر ہے یہ ایک وسیع اور محفوظ بندر گاہ ہے۔بندر گاہ چلانے کے لیے تمام بنیادی سامان اور آلات بھی لگ چکے ہیں۔گزشتہ برس سے بندرگاہ فعال ہے۔ کئی بحری جہاز وہاں سے سامان لے کر مختلف ممالک کو روانہ ہو چکے ہیں۔گوادر فری اکنامک زون کے پائلٹ فیز کا کام مکمل ہوچکا ہے۔گوادر بندرگاہ اور فری اکنامک زون کو مکمل طور پرفری ٹیکس قرار دے دیا گیا ہے۔گوادر انٹرنیشنل ٹرمینلز لمیٹڈ نے ویب بیسڈ ون کسٹمز سسٹم کا آغاز کردیا ہے۔گوادر بندرگاہ کے تمام شعبے اگلےتین سے چار سال میں مکمل طور پر آپریشنل ہو جائیں گے۔معاملہ صرف گوادر تک محدود نہیں رہا۔ حکومت نے تو بلوچستان میں لسبیلہ کے ساحلی علاقے گڈانی میں بھی بندرگاہ کی تعمیر کی اصولی منظوری دے دی ہے۔یقیناً یہ بھی چین کے تعاون سے تیار کی جائے گی۔چین اور پاکستان دونوں سی پیک کو جلد سے جلد مکمل کرنا چاہتے ہیں۔گزشتہ ماہ عمران خان نےپاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے سی پیک اتھارٹی تشکیل دینے کا حکم بھی دیا ہے۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا کے کئی ممالک ’’سی پیک ‘‘ کے خلاف مسلسل مصروف ِ عمل ہیں۔بھارت اور امریکہ دونوں تکلیف میں ہیں۔کئی علاقائی ممالک کو بھی خاصے تحفظات ہیں۔ باقاعدہ پلاننگ سے سی پیک کے خلاف افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات بھی اسی کاتسلسل ہیں۔ بھارت، افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں پوری طرح اسے ناکام بنانے کی کوشش میں ہیں۔ آئی ایم ایف نے تومذاکرات کے وقت باقاعدہ سی پیک کی تفصیلات مانگ لی تھیں۔وہ توچین کی شدید ناراضی کے اظہار پر خاموش ہوا۔میرے خیال میں عمران خان کے نئے پاکستان کےلئے سی پیک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔انہیں اِس طرف زیادہ توجہ دینا چاہئے۔چین سے آتی ہوئی علم و عمل کی روشنیاں ہی پاکستان کو مکمل طور پر منور کر سکتی ہیں۔