آئو پاکستانیو! گمبھیر کشمیر کو رپورٹ کریں

September 15, 2019

’’معجزائی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے تیز تر ارتقا کے جاری جدید دور کی ایجاد ’’سوشل میڈیا‘‘ سے اطلاعات کی فراہمی اور ان سے تشکیل پانے والی رائے عامہ کی کوئی حقیقت ہے تو، یقین جانئے کہ برصغیر کے دونوں ایٹمی ہمسایوں میں گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ بذریعہ تحقیق اس ثابت شدہ حقیقت کو بھی ذہن نشین کر لیجئے کہ آج کی دنیا میں کسی بھی خطے میں کسی بھی نوعیت کی کوئی جنگ ہو، وہ کسی بھی سطح کی ہو اس کا آغاز ’’سوشل میڈیا‘‘ کے موثر ترین ہتھیار سے ہی ہوگا اور جو فریق اس پہلے مرحلے میں کامیاب ہوگا اس کے اگلے مرحلے میں کامیاب ہونے کے امکانات واضح طور پر بڑھ جائیں گے بشرطیکہ ’’سوشل میڈیا‘‘ کا استعمال دوسرے مرحلے میں ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی شکل میں ہو، محدود اور تیز تر جھڑپیں ہوں یا سرحدوں پر روایتی اسلحے کی جنگ میں بھی سوشل میڈیا کا ہتھیار پہلی فتح کو برقرار رکھتے ہوئے بطور معاون جاری رہے۔ پاکستان اور بھارت میں تو ان تمام صورتوں کی جنگ ہو رہی ہے۔ سو الفاظ، تصویر اور وڈیو پر مشتمل پیغام سازی (Message Construction)کی سکت و صلاحیت حتمی فتح و شکست میں اہم کردار ادا کرے گی‘‘۔

ابلاغیات کی سائنس کے طالب علم اور بطور میڈیا نقاد خاکسار کی متذکرہ رائے زنی کو بنیاد بنا کر سوشل میڈیا کی مقبوضہ کشمیر کی موجود انتہائی تشویشناک صورتحال کے حوالے سے انڈو۔پاک سوشل میڈیا وار کی کامیابیوں اور ناکامی کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان نے یہ جنگ روزِ روشن کی حقیقت کی مانند جیت لی ہے۔ ایسے کہ حکومتوں، بین الاقوامی میڈیا (جسے جگایا گیا) اور انصاف و امن کے عالمی اداروں کی گمبھیر کشمیر پر ابتدائی بے توجہی کے بعد ان کے کم تر درجے پر ہی سہی کچھ متحرک ہونے سے ہی آج مسئلہ کشمیر مکمل طور پر عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ شملہ معاہدے 1973ء کے بعد بین الاقوامی امور میں یہ ہمارا اولین ہدف رہا ہے، جیسے اس عرصے میں اسے ’’دو طرفہ حل‘‘ میں جکڑے رکھنا بھارتی خارجہ پالیسی کا خاصا تھا، آج مسئلہ کشمیر کا فلیش پوائنٹ ایک درجے پر بھڑک گیا ہے، جس جس عالمی اسٹیک ہولڈر اور عالمی رائے عامہ کو فلیش پوائنٹ کی بلنکنگ نظر نہیں آ رہی تھی، اب وہ کشمیر سے اٹھتے شعلے اور دھویں کی حدت کو محسوس کر رہا ہے اور اس کے احساس کا درجہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یوں ’’دو طرفہ مذاکرات‘‘ اور ’’دو طرفہ حل‘‘ کے لاحاصل فریب کا پردہ تو چاک ہوا ہی ہے، تیزی سے بنیاد پرستی میں رنگے جانے والے مودی کے ہندو بھارت میں سوویت یونین کو پاش پاش کرنے والے سوویت قیادت کے احساسات پر اسٹرئیکا (ضمیر کی آواز) اور گلاسناسٹ (اوپن نیس) تیزی سے جگہ بنا رہے ہیں۔

حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کتنی بھی طویل ہو اور کتنی ہی محال، آسام، پنجاب و ہریانہ، ناگا لینڈ، منی پور، میزو رام، کرناٹک، تامل ناڈو، تری پورہ، جھاڑ کھنڈ اور میگالایا کے عوام بھارتی یونین کی جکڑ بندی سے الگ ہو کر اپنا الگ وطن بنانے کی آزادی کا کھلم کھلا اظہار کر رہے ہیں۔ گویا یہ بھی مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی راہ پر چل پڑے ہیں، جیسے وہ کشمیر کو پاکستان بنانے کے لئے اقوام متحدہ کی منظور قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے لئے اپنے ارادے کے ریکارڈ کے ذریعے پاکستان میں ضم ہونے کا اظہار 7عشروں سے کر رہے ہیں۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ اس صورت کو روکنے کے لئے مودی نے اپنی جانب سے آخری وار اپنے پر ہی کر ڈالا اور بھارت کے بٹوارہ در بٹوارہ کی متذکرہ صورت تیزی سے بنی لیکن اس کا اصل کریڈٹ مقبوضہ کشمیر کے مقہور و محبوس کشمیریوں کی جدوجہد اور برہان مظفر وانی کے شروع کئے گئے جہاد اور اسے ملنے والی سوشل میڈیا کی سپورٹ کو جاتا ہے، تبھی تو فسطائی مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو پر اکتفا نہیں کیا، فون اور انٹرنیٹ کی سروس مکمل معطل کر دی۔

قارئین کرام! سوشل میڈیا کا کمال ہی یہ ہے کہ یہ مین اسٹریم میڈیا کے مقابل کم تر پروفیشنل ہے پھر ادارہ سازی اور اونر شپ سے بھی محروم، نہ کوئی مستحکم لیگل گرائونڈ۔ پھر بھی موثر یہ نئی طرز کا انقلابی میڈیا عوام الناس کے ہاتھ میں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے پورے عالمی معاشرے کو نیم صحافی بنا دیا ہے کہ اس کے ارب ہا یوزر اپنی اپنی قدرتی ابلاغی صلاحیت، دلچسپی، ارادوں اور مخصوص مقاصد کے مطابق سوشل میڈیا کی مختلف آپشنز پر پیغام سازی کرتے ہیں اور کئی تو شعوری طور پر وڈیو میکنگ، فوٹو گرافی، رپورٹنگ، بلاگنگ سے بالکل پروفیشنل صحافیوں کی طرح مختلف النوع میڈیا پروڈکٹس تیار کر کے اپنے اپنے سماجی حلقوں تک پہنچاتے ہیں، جس کا بڑا حصہ وائرل ہو کر عالمی سطح تک وسیع ہو جاتا ہے۔ یہیں سے تو سٹیزن جرنلسٹ کا تصور اور اب عملداری ظہور پذیر ہوئی۔

آج جبکہ مقبوضہ کشمیر کے 9ملین کشمیریوں کو معاشرتی تاریخ کے طویل ترین کرفیو میں جکڑ کر ان کے اپنے ہی گھروں میں نظربند کر کے فون اور نیٹ ورک سروس سے بھی محروم کر دیا گیا ہے، ہم ان کی جو موثر اور نتیجہ خیز معاونت کر سکتے ہیں، وہ یہی ہے کہ اپنے اپنے آن لائن ٹائم میں زیادہ سے زیادہ ٹائم کشمیر کاز کو عطیہ کریں۔

مقبوضہ کشمیر کی طرف تو اب مین اسٹریم میڈیا بھی تمام تر پابندیوں کے باوجود ایک محدود درجے پر متوجہ ہو گیا ہے۔ فوری اور شدید ضرورت بھارتی ریاست کے ان عقوبت گاہوں کی طرف دینے کی ہے جو ہندو بھارت کے بدنام زمانہ ابوغریب جیل ہے، جہاں محدود ترین اطلاعات کے مطابق ہولناک تشدد سے مقید کشمیری نوجوانوں کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور قیدی بدترین انسانیت سوز تشدد کے برداشت کرنے پر موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارہ اس کی تصدیق کر چکا ہے۔ اس کے لئے اب پاکستان کو الگ سے ایک نئی مہم کا آغاز کرنا ہو گا کہ انہیں بلاتاخیر رہا کیا جائے۔ قید خانوں میں فیکٹس مشن بھیجنے کا مطالبہ زور شور سے ہونا چاہئے اور ان کے تمام متعلقہ اعداد و شمار کی فراہمی کا بھی۔