’حافظ نظر محمد سومرو‘ جید عالم دین اور ختم نبوت کے سپاہی

September 17, 2019

قادیانی فتنے کے خلاف برصغیر پاک و ہند کے بہت سے علماء کرام کے ساتھ ساتھ سندھ کے علماء نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور قادیانی فتنے کے تدارک کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ سندھ کے انہی علماء میں سے ایک مناظر اسلام، حافظ مولانا نظر محمد سومرو دیہاتی نقشبندی بھی شامل تھے جنہوں نے قادیانی فتنے کے رد میں تحریر و تقریر کے ذریعے لوگوں کو قادیانی فتنے سے خبردار کیا۔

مولانا نظر محمد سومرو دیہاتی 25 ربیع الاول 1304ء بمطابق22 دسمبر 1886ء میں ضلع نوشہرو فیروز سندھ کے قصبے’’دیہات‘‘ میں ایک علمی و روحانی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حاجی حافظ عبد الرحمن سومرو (تاریخ وفات: 17 جمادی الثانی 1326ء) تھا ۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے دیہات میں آخوند عبد الخالق سے حاصل کی، بعد ازاں فارسی اور عربی علوم کی تعلیم ضلع خیرپور کے قصبے محبت ڈیرو سیال میں مولوی میاں خیر محمد سیال سے حاصل کی۔ فارسی علوم کی تحصیل کے بعدوہ حیدر آباد کے قریب درگاہ عالیہ سرہندیہ ٹنڈو سائیں داد تشریف لے گئے جہاں مدرسہ دارالارشاد سے عربی علوم کی مزید تحصیل کی۔عربی اور فارسی علوم کے ساتھ ساتھ آپ نے قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے دہلی کا سفر اختیار کیا اور وہاں مولوی عبدالرب دہلوی کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ دہلی میں تقریباً پانچ ماہ کے قیام کے بعد وہ واپس سندھ تشریف لائے اور اپنے آبائی قصبے دیہات میں دینی علوم کا مدرسہ ’’مجددیہ‘‘ قائم کیا، جہاں تاحیات درس و تدریس کا مشغلہ جاری رکھا۔

ان کا مدرسہ علم و شریعت کا سرچشمہ تھا۔مولانا نذر محمد سے فیض حاصل کرنے والے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں مولوی غلام حسین سومرو (فرزند)، مفتی عبداللطیف سومرو، سید حاجی محمد شاہ (کنڈیارو)، سید حاجی وریل شاہ (کنڈیارو)، حکیم محمد امین سومرو شامل ہیں جہوں نے بعد میں دہلی میں حکیم اجمل خان کے طبیہ کالج سے تعلیم حاصل کی اور والی ریاست خیرپور میر علی نواز تالپور کے شاہی طبیب مقرر ہوئے۔ فقیر اسماعیل ہریاہ تعلقہ صوبھودیرو ضلع خیرپور، مولوی نور احمدگوٹھ حاجی قابل موجائی نزد محراب پور، حافظ محمد صالح لاکھو (کنڈیارو)، فقیر دلاور حسین منگی (سگیوں، تعلقہ صوبھودیرو) بھی ان کے معروف شاگردوں میں سے تھے۔

مولانا نظر محمد سومرو دیہاتی بلند پایہ عالم، شاعر اور حاذق حکیم تھے۔ ان کی علمی و دینی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے۔ انہوں نے سیرت النبی ﷺ، فقہ، ردِ قادیانیت، سیرتِ خلفائے راشدین، تصوف اور شاعری کے موضوعات پر فارسی اور سندھی زبانوں میں لاتعداد کتب تصنیف و تالیف کیں، جن میں مجموعۂ نظم دیہاتی (حمد، نعت اور ،مناجات کا مجموعہ 1370ھ میں شائع ہوا)، انوار الاحمدیہ فی حالات المشائخ نقشبندیہ (سیرت النبیﷺ، سیرتِ خلفائے راشدین اورمشائخ سلسلۂ نقشبندیہ کے احوال پر مشتمل)، سوال و جواب فی تردید تحفۂ قادیان (قادیانی فتنے کے رد میں سوال و جواب پر مشتمل تحقیقی کتاب)، الدرالمنظوم فی تذکرۃ المخدوم المکتوم(مخدوم نوح سرورؒ کے حالات پر مشتمل )، احسن التقریر فی جواب التحریر (انوار الاحمدیہ پر مولوی محمد عثمان کے اعتراضات کا جواب)، حضرت خواجہ محمد حسن جان سرہندی کی فارسی کتاب’’ابتداء السلوک‘‘ کا سندھی ترجمہ، تذکرۂ اولادِ حضرت عثمان غنیؓ ، گلزار حیدر (حضرت علیؓ بن ابی طالب کے صاحبزادگان اورخاندانِ اہل ِبیت کے احوال پر مبنی کتاب ) شامل ہیں۔ آپ تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ اپنے آبائی گاؤں میں شریعتِ اسلام کی ترویج و اشاعت میں بھی مشغول رہے۔

آپ کا وعظ پُر تاثیر ہوتاتھا جو سامعین و حاضرین پر سحر طاری کردیتا تھا۔ آپ کی تبلیغ سے متاثر ہوکر محبت دیرو کے قصبے کے بہت سے ہندوؤں نے اسلام قبول کیا۔ آپ بحث و مباحثہ اور مناظرہ میں مہارت رکھتے تھے، آپ نے ضلع خیرپور کے تعلقہ صوبھودیرو کے مختلف علاقوں میں قادیانیوں سے مناظرے بھی کیے اور انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا۔ آپ کا ذاتی کتب خانہ ’’دارالمطالعہ مجددیہ‘‘کے نا م سے دیہات (ضلع نوشہروفیروز) میں واقع ہے، جس میں تقریباً تین ہزار کتب علمِ حدیث، علمِ تفسیر، فقہ، قوائد، لغت، فلسفہ، تصوف، قرآن، سیرت النبی ﷺ، تاریخِ اسلام اور شاعری کے موضوعات پر فارسی، عربی ، سندھی اور اردو زبانوں میں موجود ہیں۔

آپ بچپن میں پیر خواجہ عبد الرحمن جان سرہندی مجددی فاروقی سے بیعت ہوئے اور جوانی میں پیر خواجہ محمد حسن جان سرہندی مجددی فاروقی سے بھی روحانی فیض حاصل کیا اور سلوک کی منازل بھی طے کیں۔ آپ نے متعدد غیر ملکی سفر بھی اختیار کیے۔ آپ اپنے مرشد حضرت پیر خواجہ محمد حسن جان سرہندی کے ہمراہ سورت بندر کے راستے سے حرمین شریفین بھی گئے اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ اس کے علاوہ دہلی، اجمیر اور سرہند شریف کے سفر بھی کئے۔ آپ کو عین جوانی میں دق کا مرض لاحق ہوا اور9 جمادی الثانی 1345ھ بمطابق 15 دسمبر 1926ء میں 40 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ آپ کا مزار آبائی قصبے دیہات کے قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔