پارٹی اِز اگین اوور؟

September 17, 2019

جس طرح ہم نے مردے کو نہلانے، کفن پہنانے، جنازہ پڑھانے اور دفنانے کا کام مولوی کے سپرد کررکھا ہے اسی طرح جب کوئی حکومت مرگ ناگہانی کا شکار ہوتی ہے تو اس کی تجہیز و تکفین کا کام بھی مذہبی جماعتوں سے لیا جاتا ہے۔

پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے دور میں تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوا تو لاہور میں مارشل لا لگانا پڑا۔ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل اعظم خان نے سمری ٹرائل کے بعد جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی اور جے یو پی کے رہنما عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت سنا دی لیکن جب خواجہ ناظم الدین کی حکومت رخصت ہو گئی تو حالات معمول پر آگئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پی این اے کا دھاندلی کیخلاف احتجاج اچانک تحریک نظام مصطفیٰؐ میں بدل گیا کیونکہ سیاسی نعروں کی بنیاد پر وہ فضا پیدا نہیں ہورہی تھی جو حکومت کو رخصت کرنے کیلئے درکار تھی۔

جب بساط لپیٹ دی گئی تو جذبہ ایمانی سے سرشار مجاہدین اسلام یوں پرسکون ہوگئے جیسے مارشل لا ہی نظام مصطفیٰ ؐکا نعم البدل ہو۔ 9سال بعد بینظیر وزیراعظم بنیں تو ایک بار پھر مذہب کارڈ استعمال کیا گیا۔ علمائے کرام اور مفتیان عظام نے عورت کی حکمرانی کے غیر اسلامی ہونے کے فتوے دینا شروع کردیئے۔

جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے نوے کی دہائی میں حکومتوں کو رخصت کرنے کا کام سنبھالے رکھا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کا وقت پورا ہو جاتا تو اس کیخلاف دھرنا دیکر بیٹھ جاتے، مسلم لیگ(ن) کی مہلت ختم ہو جاتی تو اسے گھر بھیجنے آجاتے۔

بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں محلاتی سازشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تو میاں نواز شریف نے اگست 1994ءکو لاہور میں مسلم لیگ(ن) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلایا اور ایک پُرجوش تقریر کے بعد حکومت کیخلاف ’’تحریکِ نجات‘‘ چلانے کا اعلان کر دیا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کو بمشکل ایک برس ہوا تھا اِسلئے مسلم لیگ(ن) کے رہنما اس فیصلے پر گومگو کی کیفیت میں تھے۔ سرتاج عزیز اپنی کتاب Between Dreams and Realities میں اس اجلاس کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک پارٹی رہنما نے نواز شریف سے کہا کہ پاکستان میں تحریک چلانے اور برسر اقتدار آنے کے لئے تین ’’الف‘‘ کی حمایت درکار ہوتی ہے یعنی اللہ، امریکہ اور آرمی۔ آپ کے پاس کتنے ’’الف‘‘ ہیں۔

نواز شریف مُسکرائے اور کہا، فی الحال تو صرف اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ بعد ازاں سامنے آنیوالے واقعات نے ثابت کیا کہ تب نواز شریف کے پاس ایک سے زائد ’’الف‘‘ دستیاب تھے۔

بہرحال ستمبر کے مہینے میں تحریک نجات کا آغاز ہو گیا۔ ملک بھر میں بڑے جلسے اور کامیاب ریلیاں ہوئیں۔ فوری طور پر حکومت سے نجات نہ مل سکی تو قاضی حسین احمد آگے آئے۔ جماعت اسلامی نے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دینے کی کوشش کی تو اسلام آباد میدان جنگ بن گیا۔

اس دوران مرتضیٰ بھٹو کراچی میں قتل ہو گئے۔ قاضی حسین احمد نے 27تا29 اکتوبر ایک اور دھرنے کی کال دیدی۔ جسکے بعد صدر فاروق لغاری نے بینظیر حکومت کی رخصتی کا پروانہ جاری کردیا۔ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں ایک بار پھر جماعت اسلامی سے یہی کام لیا گیا۔

2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو قائد انقلاب علامہ طاہر القادری کو قاضی حسین احمد کا جانشین مقرر کردیا گیا۔ علامہ طاہر القادری نے اچھا شو کیا مگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔

2013ءکے انتخابات کے بعد نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو ایک سال بعد ہی حکومتیں گرانے والے مذہبی عناصر متحرک ہوگئے اور اسلام آباد پر چڑھائی کردی۔ علامہ طاہرالقادری نے قبریں تک کھود لیں مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق یہ مہم جوئی ناکام ہوگئی۔ جسکے بعد مسلم لیگ(ن) کے ہی دورِ حکومت میں خادم رضوی سامنے آئے جنہوں نے فیض آباد دھرنے کے ذریعے اپنی اہلیت و قابلیت کالوہا منوایا۔

اب وطن عزیز کو مولانا فضل الرحمٰن کی صورت میں ایک نیا کردار میسر آیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا ماضی گواہ ہے کہ وہ آخری سانسیں لیتی قریب المرگ حکومتوں کو آکسیجن فراہم کرکے نئی زندگی تو ودیعت کرتے رہے ہیں مگر انہوں نے کبھی وینٹی لیٹر پر ہچکیاں لیتی حکومت کو رخصت کرنے کیلئے اپنا کندھا پیش نہیں کیا مگر اب مولانا پہلی بار قومی فریضہ سمجھ کر یہ ناپسندیدہ کام کرنے جا رہے ہیں۔

انہیں یہ فرض ادا کرنے کیلئے سب سے پہلے تواسلام آباد اور گردونواح کے علاقوں میں موسم کا حال معلوم کرنا ہوگا۔

یہ تسلی کر لینے کے بعد بھی انہیں چار کندھے درکار ہونگے۔ جے یو آئی(ف) اور اے این پی کی صورت میں دو کندھے تو دستیاب ہیں، پیپلز پارٹی نے کورا جواب دیدیا ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) والے گومگو کی کیفیت میں ہیں اور کوئی حتمی جواب دینے سے پہلے یہ تسلی کر لینا چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کے پاس کتنے ’’الف‘‘ ہیں۔

اگر اسلام آباد کا آس پاس کا موسم سازگار محسوس ہوا تو مسلم لیگ(ن) کی ’’فاختائیں‘‘ بھی اُڑان بھرنے کو تیار ہوجائیں گی ورنہ یہ کام کیپٹن(ر) صفدر اور پرویز رشید جیسے عقابوں پر چھوڑ دیا جائیگا۔عمران خان فرماتے ہیں کہ ایک سال بعد جوابدہی مناسب نہیں کسی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا وقت پانچ سال بعد آتا ہے۔

یادش بخیر، انہوں نے جب طاہر القادری کے ہمراہ اسلام آباد پر دھاوا بولا تو تب بھی حکومت کو بمشکل ایک سال ہوا تھا مگر مجھے لگتا ہے نوازشریف کی طرح عمران خان بھی پہلی کوشش میں زیر نہیں ہونگے، پارٹی ابھی باقی ہے، موسم بدلنے میں ابھی کچھ وقت درکار ہے۔