طاقت اور بددعائوں کی جنگ

September 18, 2019

ہلاکو خان جب بغداد پہنچا تو اس کے سپاہیوں نے قتل وغارت گری شروع کر دی، سنگ دل منگولوں کوجہاں کوئی سر سلامت دکھائی دیا، انہوں نے کاٹ دیا، جہاں کوئی عمارت نظر آئی، جلا کر خاکستر کر دی، جہاں کوئی کتب خانہ، لائبریری یاکوئی درسگاہ ملی اس کو راکھ کر دیا۔ تاریخ کہتی ہے کہ خون کے دھبے اور راکھ کے داغ دھوتے دھوتے دجلہ کا پانی سوکھ گیا لیکن منگولوں کی وحشت کے آثارنہ مٹے۔ اسی قتل و غارت گری کے دوران عراقی صوفیوں کا ایک گروہ منگول سپاہیوں کے ہتھے آ چڑھا، سپاہی زہد کے بوجھ تلے دبے ان بزرگوں کو لے کر ہلاکو خان کے دربار میں حاضر ہوگئے۔ سپاہیوں کا کہنا تھا کہ یہ صاحبانِ دعاہیں، عراقیوں کے بقول ان کی دعا بارگاہِ رب العزت میں قبولیت کی سند رکھتی ہے۔ ہلاکو خان نے نخوت سے پوچھا ’’پھر کیا‘‘ سپاہیوں نے جواب دیا حضور! یہ لوگ آپ کو بد دعائیں دے رہے تھے۔ ہلاکو خان صوفیا کے اس گروہ کی طرف مڑا اور جلالی لہجے میں اس الزام کی تصدیق چاہی۔ صوفیائے کرام میں سے ایک بزرگ نے اقرار میں گردن ہلا کر جواب دیا۔ اے بادشاہ! تم خلقِ خدا کے قاتل ہو، تم نے ہزاروں بے گناہوں کا لہو بہایا، تم نے اللہ کی مقدس کتابوں کی توہین کی، تمہارے سپاہیوں کے گھوڑوں نے مسجدوں کا تقدس پامال کیا، لہٰذا تم اب اللہ کے انتقام سے بچ نہیں پائو گے، تمہیں اس زمین پر حساب دینا ہو گا۔ ہلاکو خان اور اس کے حواری اس بزرگ کی جرأت پر حیران ہوگئے۔ سپاہیوں نے تلواریں سونت لیں لیکن اس سے قبل کہ تلواریں اپنا کام دکھاتیں، ہلاکو خان نے سپاہیوں کو رکنے کا اشارہ کیا، ایک قہقہہ لگایا اور صوفیائے کرام کے اس گروہ سے مخاطب ہو کر بولا ’’اے شکست خوردہ بزدل قوم کے مظلوم بزرگو! بغداد کی تباہی کے بعد ہلاکو خان کا حساب ہوا بھی تو کیا ہوگا، اب اگر تمہاری بددعائیں قبول بھی ہو جائیں، ہلاکو خان کو سو بار جنم دے کر سو بار قتل بھی کر دیا جائے تو بھی بغداد آباد نہ ہوگا، گردن سے اترے سر دوبارہ شانوں پر نہیں لگیں گے، خاک ہوئی عمارتیں اور راکھ ہوئے کتب خانے دوبارہ آباد نہیں ہوں گے، اب دنیا کا کوئی انتقام دجلہ کے کناروں پر گھاس نہیں اگا سکتا۔ ہلاکو خان اٹھا، صوفیا کے گروہ کے قریب پہنچا اور ان پر نظریں گاڑ کر بولا، جاؤ میں تمہیں اس قبرستان میں زندہ رہنے کی سزا دیتا ہوں‘‘۔ ہلاکو خان بغدادسے واپس چلا گیا۔ اب یہ معلوم نہیں قدرت نے واقعی ہلاکو خان سے انتقام لیا یا پھر آسمانی طاقتیں اس سے رعایت برت گئیں لیکن جہاں تک بغداد کی تباہی کامعاملہ ہے آج بھی تاریخ جب اس موڑ پر پہنچتی ہے تو اپنے بال کھول دیتی ہے اور اس کے منہ سے دردناک بین کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قتل کے بعد قاتل پھانسی چڑھے یا عمر قید کی سزا بھگتے، مقتول کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پانچ ہزار قاتلوں کی پھانسی بھی ایک مقتول، ایک مظلوم کو دوبارہ زندہ نہیں کر سکتی لیکن کیا کیجئے خوش فہمی بھی بڑی چیز ہے۔ دنیا کے تمام کمزور، بزدل اور مظلوم لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں سمیٹتے ہوئے، مظلوموں اور مقتولوں کو آخری غسل دیتے ہوئے یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ’’آخر کسی نہ کسی روز قاتل نے بھی مر جانا ہے۔ لمحہ موجود میں سارا عالمِ اسلام اسی خوش فہمی کا شکار ہے۔ پوری مسلم امہ کے دانشور امریکہ کی تباہی، امریکہ کی بربادی کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ کوئی کہتاہے کہ یورپ امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا، کسی کا کہنا ہے کہ عراق کی راکھ سے ہزاروں لاکھوں اسامہ پیدا ہوں گے، افغانستان کے سیاہ پہاڑوں سے لاکھوں ملا عمر کے لشکر نکلیں گے، اب امریکہ اور بھارت کو کوئی شہری چین کی نیند نہیں سو سکے گا، کوئی اعلان فرماتا ہے کہ’’ڈی ڈے‘‘ شروع ہوچکا ہے لیکن کوئی ان سے پوچھے بغداد کی تباہی اور موت کے بعد ’’ڈی ڈے‘‘ شروع ہوا، مودی اور امریکیوں کی نیندیں حرام ہوئیں، ہزاروں بن لادن پیدا ہوئے، لاکھوں ملا عمر میدان میں اترے یا یورپ امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تو کیا فائدہ؟ کیا بغداد، کشمیر اور افغانستان کے بے گناہ لوٹ آئیں گے؟۔ میرے ایک دوست اسی قسم کی مذہبی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مظلوم عراقیوں، بے بس افغانیوں، کشمیریوں اور بے گناہ پاکستانیوں کی لاشیں کہہ رہی ہیں کہ امریکہ اور اس کے تمام ساتھیوں کا بدترین انجام قریب ہے، تم اپنے پاس لکھ کر رکھ لو امریکہ اور اس کے موجودہ اتحادی عنقریب تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ میں نے قہقہہ لگایا، اور کہا ’’برادرم! غصے اور انتقام کی تلخی اس طرح تو دور نہیں ہوگی، امریکہ اور اس کے اتحادی بے شک دس ہزار مرتبہ تباہ ہوں لیکن ہمارے اوپر گر کر تو تباہ نہ ہو۔ میرے دوست کو میری بات ناگوار گزری اور ناراض ہو کر منہ بسور کر بیٹھ گیا۔ مجھے معلوم ہے کہ ایک خوش فہم شخص اسی ردعمل کا اظہار کرسکتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ میرے دوست کی خوش فہمی درست ثابت ہو، واقعی کل کا سورج طلوع ہو تو دنیا کے نقشے پر اٹلانٹک اوشن کے پار چند بدبو دار جوہڑوں اور جلی سڑی چٹانوں کے سوا کچھ نہ ہو لیکن یہ ابھی محض ’’ہوسکتا‘‘ ہے، امکان، گمان یا خیال ہے۔ آج کی حقیقت تویہ ہے کہ عراق کی سرزمیں لاشوں سے اَٹ چکی، افغانستان میں لاشیں بچھ چکیں، کشمیر کے لاکھوں باشندے موت کو گلے لگا چکے، امریکی ڈرون کا پاکستانیوں کے پرخچے اڑا کر سانس پھول چکا، بش، ٹونی بلیئر، پرویز مشرف، آصف زرداری، نواز شریف، نریندر مودی، امیت شاہ اور اب ٹرمپ رہیں یا ختم ہو جائیں، امریکہ، بھارت، اسرائیل اور یورپ باقی بچے یا تباہ ہو جائیں، ان لاشوں، جلی سڑی عمارتوں کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ زمینی حقائق تویہ ہیں کہ خادمین حرمین اپنے ہاتھوں سے پہلے ٹرمپ کو اور بعد ازاں نہ صرف نریندر مودی کو ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز پہنا چکے ہیں بلکہ ملک کا سب سے بڑا ادارہ "آرامکو" عملی طور پر بھارتی افراد کے سپرد ہوچکا اور مہاراشٹر کی ریفائنری سمیت دیگر اداروں میں 75بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی ہو گئی۔ امریکی خبر رساں ادارے ’’اے پی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 100ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، اہم اقتصادی شراکت داری اور تجارتی مفادات کے باعث خلیجی ممالک مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370ختم کرنے کے بھارتی اقدام پر چپ سادھے ہیں بلکہ یواے ای نے مودی کوملک کاسب سے براسول اعزاز دے کر پاکستان کو باقاعدہ پیغام بھی دے دیا ہے۔
ہلاکو خان نے بغدادہی کی سرزمین پرکھڑے ہو کر کہا تھا کہ ’’طاقت اور بددعائوں کی جنگ میں طاقت ہمیشہ پہلی فاتح ہوتی ہے‘‘۔ رہے نام اللہ کا جس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ (اقتباس)