میڈیا تنظیموں، انسانی حقوق کمیشن اور سیاسی جماعتوں نے میڈیا ٹریبونلز مسترد کردیئے

September 19, 2019

کراچی / اسلام آباد (نیوز ڈیسک / جنگ نیوز) حکومت کی جانب سے میڈیا ٹربیونلز قائم کرنے کے فیصلے کو میڈیا تنظیموں ، انسانی حقوق کمیشن اور سیاسی جماعتوں نے یکسر مسترد کردیا ہے ۔

آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) نے کہا ہےکہ بغیر مشاورت ٹربیونلز کا قیام صحافت کیلئے سیاہ دن ہے اور خلاف آئین ہے۔

پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) نے میڈیا ٹربیونلز کا قیام بدنیتی پر مبنی اور میڈیا کو کنٹرول اور آزادی اظہار پر پابندی کا ایک حربہ ہے۔

کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے کہا ہےکہ میڈیا ٹربیونلز جمہوری کلچر کے استحکام میں رکاوٹ ثابت ہوں گے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے صورتحال کوالارمنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیسے امید کی جاسکتی ہےکہ ٹربیونلز آزادی صحافت کا خیال رکھیں گے؟

پیپلزپارٹی اورن لیگ نےمیڈیا ٹریبونلز بنانے کا حکومتی فیصلہ مسترد کر دیا اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ کسی قیمت پر بھی میڈیا ٹریبونل کا بل پاس نہیں ہونے دیں گے جبکہ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ میڈیا ٹریبونلز آزادی صحافت کا قتل، آمرانہ سوچ ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ میڈیا کورٹس کےقیام کا مقصد میڈیا کو خوفزدہ کرکے دباؤ میں لانے کا ایک اور طریقہ ہے ۔

تفصیلات کے مطابق آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) نے خصوصی میڈیا ٹربیونلز قائم کرنے کے وفاقی کابینہ کے فیصلہ کو یکسر مسترد کردیا ہے ۔

اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون اور سیکرٹری جنرل سرمد علی نے کہا ہے کہ میڈیا کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کیے بغیر خصوصی میڈیا ٹریبیونل کا قیام پاکستانی صحافت کیلئے ایک سیاہ دن ہے یہ فیصلہ آئین پاکستان کی شق 19کی صریح خلاف ورزی ہے۔

آزادی صحافت اور میڈیا کی آواز دبانے اور کچلنے کیلئے خصوصی عدالتوں کا قیام نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ تمام جمہورتیوںاور خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کے نئے پاکستان کے تصور جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔

اے پی این ایس وفاقی کابینہ سے پر زور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس فیصلہ پر نظر ثانی کرے۔

ہم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور صحافت کی تمام تنظیموں اور اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم سے اس معاملہ میں مثبت مداخلت کرنے کے مطالبہ کی حمایت کریں تاکہ وفاقی کابینہ کے فیصلہ پر نظر ثانی کو یقینی بنایا جاسکے ۔

اے پی این ایس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اعلیٰ عدالتی اور قانونی چارہ جوئی اختیار کرے گی تاکہ تمام دستیاب قانونی ذرائع بروئے کار لاکر اس غیر آئینی اقدام کی مزاحمت کی جاسکے۔

ادھر پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن(پی بی اے)نے بھی میڈیا ٹریبونلز کے قیام کی حکومتی تجویز مسترد کردی ہے۔

اعلامیہ میں پی بی اے نے وزیر اعظم کی مشیر اطلاعات ونشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی میڈیا ٹریبونلز کے قیام سے متعلق بیان کی سخت مذمت کی ہے۔

اس سے قبل بھی پی بی اے نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ اس تجویز کا بنیادی مقصد بیان کیا جائے۔

پی بی اے کا ماننا ہے کہ میڈیا ٹریبونلز/عدالتوں کا قیام بدنیتی ، امتیازی سلوک پر مبنی ہے اور یہ میڈیا کو کنٹرول کرنے اور آزادی اظہار پر پابندی کا ایک حربہ ہے۔

میڈیا سے متعلق مسائل کے لیے پہلے ہی قوانین، عدالتیں اور ریگولیٹری ادارے ملک میں موجود ہیں۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسی تجویز سامنے آنا افسوسناک ہے کیونکہ انتخابات سے قبل ہی کہا گیا تھا کہ نا صرف میڈیا کی آزادی برقرار رکھی جائے گی بلکہ آزادی اظہار کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے گی۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں میڈیا پہلے ہی بحران کا شکار ہے کیوں کہ حکومت نے وعدوں کے باوجود میڈیا واجبات کی اب تک ادائیگی نہیں کی ہے۔

پی بی اے اور اے پی این ایس عہدیداران نے وزیراعظم سے ملاقات کی تھی اور وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ عید الفطر2019سے قبل تمام بقایاجات ادا کردیئے جائیں گے۔

تاہم اب تک ایسا نہیں ہوا ہے اور میڈیا اداروں کو مالی مسائل کو سامنا ہے۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو گمراہ کیا جارہا ہے۔

پی بی اے نے وزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ فوری طور پر میڈیا ٹریبونلز کے قیام کی تجویز واپس لینے کا اعلان کریں۔

دوسری جانب کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر عارف نظامی نے میڈیا ٹریبونلز کے قیام سے متعلق دوبارہ اعلان پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بدنیتی پر مبنی امتیازی اور جمہوریت دشمن اقدام قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا پہلے ہی غیر اعلانیہ شدید پابندیوں اور دبائو کا شکار ہے وہاں میڈیا ٹریبونلز کے ذریعے مزید پابندیوں اور دبائو میں جکڑنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ملک میں جمہوری کلچر کے استحکام، تحریر و تقریر اور اظہار کی آزادی جیسے بنیادی حقوق کے فروغ میں رکاوٹ ثابت ہوگا۔

ادھر اپنے ایک بیان میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا ٹربیونلز کو مسترد کر دیا اور کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت مخالفوں کو نشانہ بنانےکی مہم پرہے،حکومت سیاسی مخالفوں کی طرح تنقید کرنیوالوں کوبھی جھوٹےمقدمات میں جیلوں میں ڈالنا چاہتی ہے۔

چیئرمین پی پی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ہٹلر کے دست راست بدنام زمانہ گوئبلز کی یاد تازہ کر دی ہے، حکومت نے سیاسی مخالفوں اور تنقید کرنے والوں کو خاموش کرنے کا آسان راستہ ڈھونڈ نکالا ہے، نام نہاد میڈیا ٹریبونلز بھی مخالفوں اور تنقید کرنے والوں کو نشانہ بنانے کے لئےقائم کئے جا رہے ہیں۔

اس سے پہلے نیب کےذریعےسیاسی مخالفین کو خاموش کرانےکی کوششیں کی گئیں، ان میڈیا ٹریبونلز کا مقصد بھی صرف مخالف اور تنقید کرنے والوں کی آواز دبانا ہے۔

بلاول کامزید کہناہےکہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا بھی مودی کےچیلوں کی طرح کام کر رہی ہے، تحریک انصاف کی سوشل میڈیا کا کام شہریوں کو آن لائن ہراساں کرنا ہے۔

چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کسی قیمت پر میڈیا ٹریبونلز کا بل پاس نہیں ہونے دیگی، پاکستانی میڈیا سنسرشپ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے،پی پی پی آزادیٔ صحافت کی علمبردار ہے۔

موجودہ حکومت کو کسی قیمت پر آزاد یٔ صحافت کو نشانہ نہیں بنانے دیں گے ۔

دوسری جانب ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن)کی ترجمان مریم اور نگزیب نے کہاکہ جو نالائقی کا سوال کرے اسکو جیل میں بند کیا جاتا ہے۔

میڈیا ہاؤسز کو بند کرنے کیلئے ٹربیونل بنارہے ہیں،ہر دور میں ٹربیونل لانے کی کوشش کئی گئی ۔انہوں نےکہاکہ پارلیمان سے آواز آئے تو تالہ لگا دیں ،اپوزیشن کی آواز آئے تو گرفتا کر لو،میڈیا کی آواز آئے تو ٹربیونل بنا دو ،آپ میڈیا ٹربیونل بنا کر میڈیا کی آواز بند کردیں گے لیکن 22 کروڑ عوام کی آواز کیسے بند کریں گے۔

دریں اثناء سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اپنے بیان میں کہا کہ میڈیا پر کوئی بھی قدغن، جمہوریت پر حملہ اور آئین کی خلاف ورزی ہے ۔

میڈیاپرقدغن کےکسی بھی اقدام کی مذمت کرتےہیں اور پارلیمنٹ میں اسکی مذمت کریں گے۔

میڈیا کو پہلے ہی شدید سنسر شپ کا سامنا ہے، میڈیا کو حکمرانوں کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے ۔ میڈیا پر سنسرشپ مارشل لا ادوار سے بدتر ہے۔

میڈیاتنازعات کےحل کیلئےپریس کونسل آف پاکستان،پیمراکونسل برائے شکایات، ویج بورڈ عملدر آمد ٹریبونل موجود ہے۔

لگتا ہے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے حوالے سے ناکامی کے بعد حکومت میڈیا کورٹس جیسےاقدامات کی کوشش کررہی ہے۔

پاکستان کی پارلیمنٹ میڈیا کے ساتھ کھڑے ہو گی۔ چیئرمین امن ترقی پارٹی محمد فائق شاہ نے حکومت کی طرف سے میڈیا کیلئے خصوصی عدالتیں بنانے کے فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے اور اسکی آزادی جمہوری معاشرے کیلئے ضروری ہے تاہم احتساب اور شکایت کیلئے ماڈل کورٹس میں اور احتساب عدالت میں ہی مقدمات چلائے جائیں۔

میڈیا ٹربیونل بنانا آزادی اظہار میں شک کی نظر سے دیکھا جائے گا، حکومت میڈیا تنظیموں کو اعتماد میں لیکر”احتساب اور شکایات“ کا طریقہ کار وضع کرے۔