مشرق وسطیٰ میں کشیدگی

September 22, 2019

ایران اور سعودی عرب میں تیل تنصیبات پر حملوں سے پیدا ہونے والی کشمکش میں امریکی اقدامات مزید سنگینی لے آئے ہیں۔ امریکی صدرنے ایران کے مرکزی بینک، نیشنل ڈویلپمنٹ فنڈ اور مالیاتی کمپنی اعتماد تجارت پارس پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے جمعہ کے روز کہا کہ یہ کسی ملک پر نافذ کی جانے والی سخت ترین پابندیاں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایران کو مہلت دی ہے، اگر چاہوں تو یہاں کھڑے کھڑے 15اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہوں۔ امریکی صدر نے چین کو بھی تیزی سے اپنی فوج بڑھانے پر دنیا کے لئے خطرناک ملک قرار دیا۔ اسی روز امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے مزید فوج سعودی عرب روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا کہ فوجوں کی تعیناتی دفاعی نوعیت کی ہوگی البتہ فوجیوں کی تعداد بارےحتمی فیصلہ فی الحال نہیں کیا گیا۔ سعودی تیل تنصیبات پر حملے کی ذمہ داری پچھلے ہفتے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے قبول کی تھی لیکن امریکہ اور سعودی عرب نے ان حملوں کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا جبکہ ایران اس کی سختی سے تردید کر رہا ہے۔ مارک ایسپر نے کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امریکہ سے مدد کی درخواست کی تھی لہٰذا دونوں ملکوں کے میزائل اور دفاعی نظام کو مضبوط بنایا جائے گا اور انہیں سامانِ حرب کی فراہمی میں تیزی لائی جائے گی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ امریکہ کا ایران یا چین سے براہ راست کوئی جھگڑا نہیں تو پھر کیا اس کی وجہ اسرائیل اور بھارت ہیں جن میں سے اول الذکر ایران جبکہ ثانی الذکر پاکستان اور چین سے خائف ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے کوئی ایسا ملک چھوڑا جو اسرائیل کو ٹکر دے سکے؟ دریںصورت مقصد ایران کو عراق بنانے اور خطے کے دیگر ممالک کو اپنا اسلحہ بیچنے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ پوری مسلم امہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقائق کا ادراک کرے اور مذکورہ معاملہ حل کرائے، استعماری قوتوں نے جنگ کی آگ بھڑکا دی تو کسی کا دامن محفوظ نہ رہے گا۔