کس نے کیا ہے، کون کرے گا خوشبو کو زنجیر

September 29, 2019

کس نے کیا ہے، کون کرے گا خوشبو کو زنجیر

اے میرے کشمیر .... اے ارضِ دِل گیر

تحریر: نرجس ملک

لے آؤٹ: نوید رشید

’’کشمیر‘‘ براعظم ایشیا کے قلب اور ہمالیہ کے دامن میںپھیلی دنیا کی خُوب صُورت ترین وادی، جسے کبھی ’’جنّتِ ارضی‘‘ کہا گیا، تو کبھی ’’درّہند‘‘ جو اپنے آنچل تلے سر بہ فلک پہاڑوں، سرسبز و شاداب وادیوں، بَل کھاتے دریائوں، لہلہاتے کھیتوں، گنگناتے جھرنوں، سرخوشی سے جھومتے چناروں اور نیلگوں جھیلوں کو چُھپائے ہمہ وقت ثنائے قدرت میںمصروف و مگن تھی، جس کا حُسن ہی اس کی پاکیزگی کا امین و گواہ تھا۔ جہاں صرف امن و آشتی کے سوتے پُھوٹا کرتے، فضائیں نشیلے، مہکتے، مُسکراتے نغمے چھیڑا کرتیں، جس کے باسی اِک چاہت و الفت ہی کی بولی بولتے، سمجھتے تھے اور جسے قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ (Jugular vein)قرار دیا۔

اسی وادئ کشمیر سے متعلق 1968ء میں ایک گیت لکھا گیا ؎ ہر چہرہ یہاں چاند تو ہر ذرّہ ستارہ.....یہ وادئ کشمیر ہے جنّت کا نظارہ.....ہنستی ہیں جو کلیاں تو حسیں پھول ہیںکِھلتے.....ہیں لوگ یہاں جیسے، اُتر آئے فرشتے..... ہر دِل سے نکلتی ہے یہاں پیار کی دھارا.....یہ وادئ کشمیر ہے جنّت کا نظارہ.....یہ چوٹیاں برفوں کی، ہیں آزادی کا پرچم.....ہنستی ہیںغلامی پہ یہ انسانوں کی ہر دَم..... دیتی ہیں یہ آکاش کو بانہوں کا سہارا.....یہ وادئ کشمیر ہے جنّت کا نظارہ.....دن رات ہوا ساز بجاتی ہے سُہانے.....ندیوں کے لَبوں پر ہیں محبّت کے ترانے.....مستی میںہے ڈوبا ہوا بے ہوش کنارا.....یہ وادئ کشمیر ہے جنّت کا نظارہ.....یہ جلوئہ رنگیں ہے کسی خواب کی تعبیر.....یا پھولوں میںبیٹھی ہوئی دُلہن کی ہے تصویر.....یا تھم گیا چلتا ہوا پریوں کا شکارا.....یہ وادئ کشمیر ہے جنّت کا نظارہ۔

اور پھر.....اُس دُلہن زمین نے اپنے ہی لہو سے رنگی رَدا اوڑھ لی۔ دُرّہند ناپاک قدموں تلے روندا جانے لگا۔ سرسبز وادی کا مُکھڑا خون سے دُھل گیا۔ دریائوں میںلاشے تیرنے، کھیتوں میںعزّتوں کے جنازے دفن ہونے لگے۔ جھرنوں سے موت کے گیت اور چناروں سے آگ کے شعلے لپکتے دکھائی دیئے۔ گویا ہماری شہ رگ پنجۂ ہنود میںجکڑی گئی اور اِن سب قیامت خیز نشانیوں کی موجب ٹھہری، امن و آشتی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے راگ پر رقص کرنے والی بزدل بھارتی حکومت اور نام نہاد بھارتی سورما۔

کشمیر جغرافیائی لحاظ سے پاکستان ہی کا فطرتی جزر ہے کہ ریاست کشمیر کے شمال میں ہندوکش کا کوہستانی سلسلہ اور شمال مغربی پہاڑی علاقے کا مشترکہ پھیلائو پاکستان و کشمیر کو ایک ہی مُلک کا خطّہ بناتا ہے۔ اِن کے درمیان کوئی قدرتی حدِ فاصل نہیں، جیسی کہ بھارت اور کشمیر کے درمیان موجود ہے۔ اور پھر تقسیمِ ہند کے وقت برصغیر کی لگ بھگ 500 آزاد ریاستوں کے ضمن میںکیے گئے فیصلے کے مطابق وائسرائے نے مختلف ریاستوں کے راجوں، مہاراجوں اور نوابوں سے اپنے آخری خطاب میں واضحطور پر کہہ دیاتھا کہ ’’اُنہیں اپنی ریاستوں کا الحاق پاکستان یا بھارت میںسے کسی کے ساتھ کرنا ہوگا۔

لیکن الحاق کرتے ہوئے اوّل اس بات کا خیال رکھیں کہ ریاست کے عوام کس کے ساتھ انضمام چاہتے ہیں اور دوم، ریاست کا جغرافیائی محل وقوع اور معاشی و واقتصادی حالات کس مُلک سے الحاق کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘ تو کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ تو گویا اُس اعلان کے ساتھ ہی ہوگیا تھا، لیکن ہندو بنیے کی کنجوسی کی طرح ڈھٹائی، بے شرمی اور بےحِسی بھی گویا اب ضرب المثل بن چُکی ہے، خاص طور پر موجودہ حکومت کی انتہا پسندانہ روش جیسی تو ماضی میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مودی بلکہ ’’مُوذی سرکار‘‘ نے پون صدی سے جدوجہدِ آزادی کی راہ میںآبلہ پا، مجبور و مقہور کشمیری عوام پر ظلم و ستم، جبرواستبداد کا جو نیا پہاڑ توڑا ہے، اُس نے تو ماضی کی حکومتوں کے سارے جابرانہ اقدامات کو بھی مات دے دی ہے۔

نہتّے کشمیریوں پر قریباً 9لاکھ بھارتی سورما مسلّط ہیں، تو محضاپنےحقوق کے لیے آواز بلند کرنے کے جرم کی پاداش میں گالی سے لے کر گولی، ٹیئر گیس شیلز سے لے کر پیلٹ گنز تک کون سا ایسا ہتھیار ہے، جو بے دریغ آزمایا نہیں جارہا۔ 5 اگست سے تاحال پوری وادی میںکرفیو نافذ ہے۔ یعنی مَرے پہ سو درّے۔ ایک تو یک طرفہ، غیرمنصفانہ فیصلہ، اُس پر یہ ظالمانہ بلکہ بہیمانہ اقدامات۔ اِسی بھارتی بربریت و سفّاکیت کی تناظر میں، غلام محمّد قاصر نے بھی ’’دیو کے چُنگل میں شہزادی‘‘ کے عنوان سے ایک منظر کشی کی تھی،

جسے پڑھ کے روح کانپ اٹھتی ہے، آپ بھی پڑھیے ؎ زندہ ہے، پرمانگ رہی ہے جینے کی آزادی.....دیو کے چُنگل میںشہزادی، یہ کشمیر کی وادی.....چھینتے ہیں ہونٹوں سے دُعائیں اور سَروں سے ردائیں.....دشمن نے جن بھیڑیوں کو جنگی وردی پہنادی.....شاید ایسے ایک میّت پامالی سے بچ جائے.....ماں نے کم سِن بچّی کی دریا میںلاش بہادی.....سوئے ہوئے ضمیر نے اب تک دروازہ نہیںکھولا.....ہم نے تو ظلم کے پہلے دن زنجیرِ عدل ہلادی.....حُسن لکیریں کھینچ رہا تھا سادہ سے کاغذ پر.....آزادی کا لفظ لکھا کشمیر کی شکل بنادی۔

یہ اُسی کشمیر کا نوحہ ہے، جس کے لازوال حُسن، تاریخی ثقافت، جداگانہ طرزِ زندگی، میٹھی بولیوں، منفرد تہواروں، مدھر سُروں، گیتوں، روایتی پہناووں، کھانوں کا ایک عالم معترف تھا۔ شعراء کے شیریں و معطّر قصیدوں سےقرطاس بھی مہکنے لگتے تھے، خاموں سے پھول جھڑتے تھےکہ ؎ ’’حُسن ہی حُسن ہے کشمیر کے بُت خانے میں.....دودھیا چاندنی پھیلی ہوئی پونم جیسی۔ ؎ لذّتِ وصل کو حاصل ہو زمیں کی جنّت.....مجھ سے ملنے کے لیے وادئ کشمیر میںآ۔ ؎ سنتور، پھیرن، قہوہ، چنار اور شکارہ.....ان لفظوں سے ابھرا ہے، سدا ذہن میںکشمیر۔ اور ؎ ذرّہ ذرّہ ہے مِرے کشمیر کا مہمان نواز.....راہ میں پتھر کے ٹکڑوں نے دیا پانی مجھے۔‘‘ گرچہ کشمیر کا فطری حُسن، اُس کا وہ قیمتی سرمایہ، اثاثہ ہے کہ جو اس کے وجود کے ساتھ سانس لیتا ہے اور رہتی دنیا تک اسی گود میںہُمکتا رہے گا، لیکن کشمیر کے دیش واسیوں پر ٹوٹنے والے ظلم و ستم، جبر و قہر کے تلخ ذائقوں نے لکھنے والوں کی زبانوں، لفظوں کو بھی بہت تلخ کردیا ہے۔

تب ہی تو آج اُس کشمیر کی بات ہوتی ہے، تو قلم کی سیاہی بھی بارود بن جاتی ہے۔ صہبا اختر کی طویل نظم ’’اے میرے کشمیر‘‘ کے چند بند ہیں ؎ اے مِرے کشمیر تیرے گل عزاروں کی قسم.....آتشِ غربت ہے جن میں، اُن چناروں کی قسم.....جو شکارِ صد خزاں ہیں، اُن بہاروں کی قسم.....جنّتِ گیسو درازاں، تیرا زنجیری ہوں مَیں.....گرچہ کشمیری نہیںہوں، پھر بھی کشمیری ہوں مَیں.....روح سُنتی ہے جِسے وہ روح کا قصّہ ہے تُو.....غیر کیوں ہوتا کہ میرے جسم کا حصّہ ہے تُو.....ایک دردِ مشترک کا دائمی رشتہ ہے تُو.....جو دِیا بجھتا ہے تیرا، وہ بُجھاتا ہے مجھے.....ضرب لگتی ہے تجھے اور زخم آتا ہے مجھے.....نوحہ کرتی ہیں فضائیں، دوش پر بکھرا کے بال.....غرق ہوجاتے ہیں خوں میں، جب تِری مائوں کے لال.....گریہ آبِ ’’ولر‘‘ بنتا ہے، جب سیلِ لال.....تُو مِری آنکھوں میںہوتا ہے، سمندر کی طرح.....ہر فغاں دل میں اتُر جاتی ہے خنجر کی طرح.....کب تلک بے آبرو ہوں گی مقدّس بیٹیاں.....کب تلک تقدیسِ مشرق کی اُڑیں گی دھجیاں.....

کب تلک سینوں میں اتُریں گی دہکتی گولیاں.....چاند چہرے یوں شبِ وحشت پہ وارے جائیںگے......کب تلک قبروں میں یہ سورج، اُتارے جائیں گے.....شانتی ہے صرف دھوکا، امن کی باتیں فضول.....ظلم کرتا ہے کہاں مظلوم کی بیعت قبول.....بربریت، صرف طاقت کو سمجھتی ہے اصول.....خون کے پیاسے درندے، شہد چکھتے ہیں کہاں.....بھیڑیئے، بھیڑوں کے سر پر تاج رکھتے ہیں کہاں.....جو تیرے سورج بُجھائیں، اُن کی آنکھیںپھوڑ دے.....جو تِرا سودا کریں، وہ ہاتھ بڑھ کر توڑ دے.....خوفِ دنیا اِس طرح بن، خوفِ دنیا چھوڑ دے.....تیرے ہاتھوں میں ترے انصاف کی شمشمیر ہے.....تیرا حق خودارادیت، تیری تقدیر ہے.....چُھوٹ، جیسے چُھوٹتے ہیں، دامِ ظلمت کے اسیر.....ٹُوٹ، جیسے ٹُوٹتے ہیں، رات پر شعلوں کے تیر.....جاگ، جیسے جاگتے ہیں، اہلِ غیرت کے ضمیر.....کوئی شعلہ، گوشہ تاریک میں ملتا نہیں.....صبح آزادی کا سورج بھیک میں ملتا نہیں۔

اپنی طرف سے تو طاقت و حکومت کے گھمنڈ، نشے میںمودی سرکار نے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے، لیکن وہ کیا ہے ناں کبھی کبھی شر سے بھی خیر کی کوئی صورت برآمد ہوجاتی ہے، تو وہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ جو بہت عرصے سے کسی حد تک سردخانے کی نذر تھا۔ موجودہ بھارتی حکومت کے ایک احمقانہ اقدام سے ایک بار پھر پوری دنیا کی نظروں میںآگیا ہے۔ بھارت نے سالوں کے جتن کے بعد اقوامِ عالم کی جو رائےعامّہ اپنے حق میں ہم وار کی تھی، ایک بار پھر اس کے مخالف ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں لعن طعن ہو رہی ہے۔ بھارت کا مکروہ چہرہ، دہرا کردار سب پر عیاںہوگیا ہے۔

آرٹیکل 370 کی منسوخی نے خود بھارتی حکومت کے منہ پر وہ کالک تھوپ دی ہے کہ جو اب دُھلتے دُھلتے ہی دُھلے گی کہ کشمیریوں کے ہمالیہ سے بلند جذبۂ آزادی کو تو کسی طور ختم تو کیا، کم بھی نہیں کیا جاسکتا، بلکہ جوں جوں ظلم و تشدد بڑھ رہا ہے، مجاہدینِ آزادی کے جوش و جُنوں میں کچھ اور ہی اضافہ ہو رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰعنہ کا قول ہے کہ ’’لوگوں کو ان کی مائوں نے آزاد جنا ہے، تو تم نے انہیںغلام کب سے بنالیا۔‘‘

سو، یہ تو طے ہے کہ بھارت طاقت کے بل پر کشمیریوں کو تادیر غلام نہیں رکھ سکتا۔ غلامی کی یہ زنجیریں ضرور ٹوٹیں گی، تاریکی کے بادل چَھٹیں گے، آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ یہ فیصلہ تو اٹل ہے۔ ہاں، بھارت جتنی جلدی خود یہ حقیقت تسلیم کرلے، اُتنا ہی اُس کے لیے اچھا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو، مسئلہ کشمیر کا فوجی حل خود بھارت ہی کو جلا کر خاکستر کردے۔

ہم سب بھارتی جارحیت و بربریت کے خلاف ہم آواز ہیں۔ اِسی لیے اپنی شہ رگ، اپنے اٹوٹ انگ، مقبوضہ کشمیر کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر آج ہم نے اپنے اس خاص شمارے کو سبز رنگ سے رنگ دیا ہے۔ کچھ بہت اہم صفحات، مضامین شاملِ اشاعت کیے ہیں، تو سرِورق، سینٹر اسپریڈ بھی بھارتی ظلم و قہر کی منہ بولتی تصویروں کے عکّاس ہیں۔ ہمیںیقین ہے، ہمارے قارئین بھی ہماری آواز سے آواز ضرور ملائیںگے، ہماری اس کاوش کو پسند کریں گے اور ان شاء اللہ بہت جلد ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ بے شک اب وہ دن دُور نہیں، جب امجد صاحب کا یہ منظوم خواب، تعبیر پائے گا؎

اے میرے کشمیر.....اے ارضِ دِل گیر.....اپنے لہو سے تُونے لکھی جو روشن تحریر.....بدلے گی اِک روز اِسی سے دنیا کی تقدیر.....اے میرے کشمیر، اے ارضِ دِل گیر.....شمعِ وفا کے پروانوں کے تجھ پر لاکھ سلام.....ظلم کی گہری کالی شب میں تُوہے صبح امام.....تُونے جہدِ حق کو دیا ہے ایسا ایک مقام.....جس کی نہیںنظیر.....آزادی وہ خواب کہ جس کی آزادی، تعبیر.....اے میرے کشمیر، اے ارضِ دِل گیر.....لہو اگلتی وادی سے گر تیل نکل آتا.....پَل بھر میںان اہلِ حشم کا رُوپ بدل جاتا.....تیرا دُکھ اِک تیر کی صورت ان پر چل جاتا.....اُٹھتے جاگ ضمیر.....کس نے کیا ہے، کون کرے گا، خوشبو کو زنجیر.....!اے میرے کشمیر، اے ارضِ دِل گیر.....تیرے لہو سے روشن ہے اب شمعِ وفا کی لَو.....تونے نئے عنوان دیئے ہیں صبر اور ہمّت کو.....اللہ اور نبی کی تجھ پر خاص عنایت ہو.....ٹوٹے ہر زنجیر.....بدلے گی اِک روز تجھی سے دنیا کی تقدیر.....اے میرے کشمیر.....اے ارضِ دِل گیر۔