گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں

March 26, 2016

ہمارے ہاں مقتول سے ہمدردی کا رواج سا ہے۔ اب جو بلجیم کے شہر برسلز میں حالیہ دھماکے ہوئے ان میں کتنے معصوم لوگوں کی جان گئی۔ اگرچہ ایک دہشت گرد تنظیم جو مشرق وسطیٰ میں دہشت اور وحشت کا پرچار کرتی رہی ہے،اس نے خودکش حملہ کی ذمہ داری قبول بھی کرلی ہے۔ ایسے میں تمام دنیا میں بے چینی اور بے کلی میں اضافہ ہواہے۔ دنیا اس وقت نامعلوم دہشت گردوں سے تنگ تو ضرور ہے مگران کیخلاف کارروائی میں سیاست کے سبب بھی تدبیر کامیاب ہوتی نظرنہیں آتی۔
برسلز کے دھماکوں کے بعد دنیا بھر میں غم اور سوگ منایا گیا۔ مگر ہمارے ہاں زیادہ سے زیادہ ردعمل بیانوں تک محدود رہا۔ سرکار نے حسب معمول اس دہشت گردی کی مذمت کی۔ اس وقت ہمارے ہاں یوم پاکستان کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ دوسری طرف ہماری اشرافیہ اور حکمران اس لکیر کو پیٹ رہے تھے جو بقول احمد رضا خان قصوری جو سانپ کے نکلنے کے بعد کی ہے۔ سابق جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ اتنا اہم تھا کہ اسمبلی کا پورا اجلاس ہی اس کی نذر ہوگیا ہے۔ عوام کے حقوق ، عوام کی صحت اور تعلیم کے معاملات میں تمام تر ذمہ داری پاکستان کی سرکار کی ہے مگر اس ذمہ داری کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ سرکار کی زبان خشک اور سوچ مفلوج نظر آتی ہے۔ پھر ہمارے ہاں عدالتیں کوشش تو کر رہی ہیں کہ انصاف اور قانون کے اپنے اختیار کو حکومت ِ وقت ہی استعمال کرے۔ مگر سیاست کے غم میں مبتلا اشرافیہ جمہوریت کی رکھوالی میں اتنی مصروف ہے کہ جمہور بھی نظرانداز ہو رہے ہیں جن کے لئے جمہوریت کی یہ عمارت بنائی جارہی ہے۔اس کی زمین پر سیاست کا قبضہ بھی ناجائز ہے اور اس کافیصلہ کون سی عدالت کرسکتی ہے وہ ایک علیحدہ باب ہے۔ سیاست دان جمہوریت کی نامکمل عمارت پر غیرقانونی کرایہ دارقابض نظر آتے ہیں۔
اس وقت بھی پوری قوم کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہے۔ جیت اورہار تو کھیل کا حصہ ہیں مگر کیا کریں کھلاڑی بھی جب سیاستدان بن جائیں تو جیتنا کدھر جائے۔ پہلے ہی عوام سیاستدانوں کے ہاتھوں خوار ہو رہے ہیں اور اب کھلاڑی بھی وہی کام کرتے نظرآ رہے ہیں۔ کرکٹ ایک زمانہ میں شرفا کا کھیل ہوتا تھا۔ ایک عرصہ تک شریف لوگ اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ پھر جب جمہوریت کی ہوا چلی تو اس نے رُت ہی بدل دی ۔ اس وقت بھی دنیا کے دو بڑی آبادی والے ملکوں میں جمہوریت کا بڑا شور و غل ہے۔ جمہوریت کاقد بہت بڑا مگر دل بہت چھوٹا ہے۔ لوگ اس کےقد کی وجہ سے دھوکہ کھا جاتے ہیں اور مسلسل کھاتے جارہے ہیں اور دل کے معاملے میں اس سے بڑا ہرجائی کوئی نہیں۔جمہوریت کسی بھی مسئلےکا حل نہیں دیتی۔ بلکہ اس کو مزید مشکل بنا دیتی ہے۔ اسی وجہ سے ترقی کے لئے تمام بڑے ممالک نے جمہوریت پر اعتبار نہیں کیا۔ پھر ہمارا اعتبار توفرنگی کی سوچ پر ہوتا ہے۔ اس کی سوچ بری نہیں اس کی سوچ اور فکر کی وجہ سے کرکٹ شرفا کا کھیل بنا۔ اب کیاکریں دنیا بدل رہی ہے۔کھیل بدل رہے ہیں تو کھلاڑی کیوں نہ بدلیں۔ روپے پیسے اور جوئے کی وجہ سے تمام دنیا میں کھیل اور سیاست دونوں ہی بے اعتبارے ہو رہے ہیں۔
اسمبلی کا حالیہ مشترکہ اجلاس صرف 13منٹ کی مدت کے بعد ہی ملتوی کردیا گیا۔ اگرچہ نواز لیگ کے پاس قوانین پاس کروانے کی گنجائش تھی مگر وہ اپنی ’’حلیف‘‘سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ پھر پیپلزپارٹی کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے پرجو ردعمل سامنے آیا اس سے بھی نواز لیگ خوش ہے کیونکہ اس سے پہلے صحت کے معاملات کی وجہ سے بینظیربھٹو بھی اس سہولت کا فائدہ اٹھا چکی ہیں اور تو اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی صحت اور مزاج کی خرابی کی وجہ سے ڈاکٹروں کی رائے پر بیرون ملک گئے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سابق جنرل مشرف کیساتھ ہے۔ ان کےڈاکٹروں کا خیال ہے ماحول کی تبدیلی سے جنرل مشرف کی صحت مزید بہتر ہوسکتی ہے اورابھی تو ان کا مقدمہ ابتدائی مراحل میں ہے۔ان پراصل الزام تو ابھی لگنا ہے جس کےبارے میں ہماری سرکار کافی غور و فکر کر بھی رہی ہے۔ ملکی سیاست اورمعیشت اس وقت بحرانی کیفیت میں ہے اگر فوج کے سابق کمانڈروں پر الزامات کا سلسلہ جاری رہا اور مقدمے بنانے کا فیصلہ کیاگیا تو جمہوریت کی یہ عمارت بھی مکمل نہ ہوسکے گی۔ہمارے دوست عالم بروہی دفتر خارجہ کے اعلیٰ افسر رہے ہیں۔ ان کامیرے ساتھ اختلاف ہے کہ ’’ایک اوراین آر او کی ضرورت کیوں؟‘‘وہ کہتے ہیں"There will be no NRO this time." ان کا دعویٰ تو اپنی جگہ درست ہے مگر حالات کے جبر کی وجہ سے فریقین غیرارادی طور پر این آر او کی طرف رجوع کررہے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری اب فوج کے بارے میں قدرے بدلے بدلے نظرآرہے ہیں۔دوسری طرف ایم کیو ایم کے قائد بھی فوج سے اختلافات ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ کراچی میں جو کچھ ہور ہاہے وہ مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔اب روزانہ جوکچھ میڈیاپرنظرآرہاہے اس میں تبدیلی نظرآرہی ہے۔ ہمارے بعض اینکر حضرات ٹی وی ایکٹر کی حیثیت سے زیادہ پہچان کرواتے نظرآتےہیں۔
اس وقت حکومت کے ارباب اختیار ایک طرف تو جدت اورلبرل ازم کے حامی نظر آ رہے ہیں اور دوسری طرف مسلم لیگ جو اقتدار میں ہے وہ مذہبی نظریات کے قریب نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی کا حالیہ ردعمل جو پنجاب میں خواتین کے قوانین کے بارے میں ہے، کافی حیران کن ہے۔ پنجاب سرکار نے جو قانون سازی کی وہ بیرون ملک دوستوں کی مشاورت سے کی۔ اس میں کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہے مگر مذہبی جماعتوں کی تشریح نے اس قانون کو متنازع بنادیاہے۔ اس قانون میں مناسب وقت پر ترمیم بھی ہوسکتی ہے۔ اصل میں نوکرشاہی جس نے اس قانون کامسودہ تحریر کیا وہ ازل سے لکیر کی فقیر ہے۔ سو انہوں نے حالات کے مطابق قانون سازی کے لئے مشاورت بھی نہ کی ۔ پھریہ تاثر بھی ملا کہ بل لبرل انداز ِ فکرسے قریب ہے جو کہ ایک غلط تاثر ہے۔ مگر پنجاب سرکار مذہبی جماعتوں سے خوفزدہ ہے۔ ایسے میں ترقی اور جدت کا نعرہ بے معنی سالگ رہا ہے۔ بات تو یہ ہے کہ کتنا عرصہ پہلے مسلمان سماج کی اس صورتحال کے حوالے سے کسی نے کیا خوب کہا ہے؎
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
ہمارا یہی دہرا معیار آج بھی اسی طرح سے ہے۔