ڈیم کب بنے گا؟

September 25, 2019

یہ کوئی دس مہینے پہلے کی بات ہے۔ چیف جسٹس اور وزیراعظم دن میں کئی مرتبہ اسکرین پر آکر کہہ رہے تھے کہ ہمیں ڈیم بنانا ہیں، پاکستانیوں چندہ دو۔ میرے ایک کزن نے دبئی میں کھاتے پیتے پاکستانیوں کو اکھٹا کیا اور چندہ مہم چلائی۔ دس دن میں ایک لاکھ ڈالر جمع کر کے پاکستان بھجوائے۔ اب وہ مجھے چھیڑتا ہے کہاں ہیں وہ تمہارے چیف جسٹس، کہاں اور کیا کام کررہے ہیں وزیراعظم کہ کوئی خبر نہیں کہ ڈیم فنڈ کہاں گیا۔ وہ جو پاکستانیوں سے نادرا آفس والوں نے ساڑھے تین تین سو روپے لیکر فارم دیے پھر کہا انکی ضرورت نہیں ہے وہ پیسے کہاں ہیں۔ کئی اخبار کب سے پہلے بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کی مدد کے لئے، چندے کا اشتہار مسلسل دیے جا رہے ہیں۔ کچھ کشمیریوں کی مدد کے لئے فنڈ اکھٹے کرنے کے اشتہارات دیتے ہیں۔ کبھی نواز شریف کے دور میں قرض اتارو کے نام پر فنڈ اکھٹے کیے جاتے ہیں۔ آخر یہ سارے فنڈز جاتے کہاں ہیں۔ نہ کبھی کسی نے حساب مانگا، نہ کبھی کسی نے حساب دیا۔

یہ باتیں کیوں یاد آرہی ہیں۔ اس دفعہ ’’کلائوڈ برسٹ‘‘ یعنی بادل ایسے برسے، سارے دن کی بارش ایک گھنٹے میں ہوگئی۔ یہ الگ بات شاید پاکستان واحد ملک ہے دنیا بھر میں کہ لوگ جگہ جگہ کرنٹ لگنے سے مر رہے ہیں۔ زیادہ بارشوں کا پانی کبھی فصلوں کو لے جاتا ہے تو کبھی انسانوں کو، پھر سیلاب آجاتے ہیں۔ پھر اس کے لئے فنڈز کی بھیک شروع ہوجاتی ہے۔ موسم کی تبدیلی سے متعلق نہ قومی پالیسی ہے اور نہ زرعی۔ اب جبکہ بارشیں، برف باری ہو رہی اور طوفان آرہے ہیں، ہم کیا کررہے ہیں۔ ہم نے ابھی تک مانسہرہ، باغ اور بالا کوٹ میں 2005کے زلزلے کے بعد کچھ بھی تو نہیں کیا۔ ادھر آئس لینڈ میں 700سال پرانا گلیشیر پگھل گیا تو وہاں کے لوگوں نے اس پر ماتم کیا، باقاعدہ تقریب منعقد کی۔ ہمارے یہاں گلگت اور دیر بالا میں گلیشیر پگھلے، لوگ بےزمین ہوئے، حکومت نے کیا کیا۔ یہ آپ جانیں، میں جو خبروں کا کیڑا ہوں مجھے تو کچھ بھی نہیں پتا چلا۔

ڈیم بنانے کے منصوبے (ہائے ہائے) یہ گفتگو کے دوران، پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے، ایک طرف تو چھوٹے ڈیم بنانے کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ اعلان بھی تھا کہ بارش کے باعث سیلابی صورتحال کو بھی قابو میں کیا جائیگا۔ اب گزشتہ دو ماہ سے سن رہی ہوں کہ فلاں علاقے کو سیلاب کے ڈر سے خالی کرا لیا گیا۔ فلاں علاقے کی فصلیں برباد ہو گئیں۔ ساری منفی خبریں ہیں، کوئی مثبت خبر نہیں۔ دس سال سے اخبار میں آرہا ہے کہ کراچی میں ایسی سو بلڈنگوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو مخدوش ہیں۔ لائحہ عمل زیرو۔ سارے بڑے سیاسی لیڈر جیل میں ہیں۔ جب میں یہ فقرہ لکھ رہی ہوں تو مجھے آصف زرداری کا یہ حاکمانہ فقرہ یاد آتا ہے ’’میرے سامنے تو اس حکومت کو قدموں میں جھکنا پڑگیا‘‘۔ پھر ایک اور حرف زبان زدعام ہوگیا ہے۔ وہ ہے وعدہ معاف گواہ۔ یوں تو ایسے وعدہ معاف گواہوں سے جیل بھری پڑی ہے۔ مگر انکے بیان، نجانے کس وقت منظر عام پر آئینگے کہ مقدموں کے ایک دفعہ فیصلے ہو جائیں۔ قوم درپیش دیگر مسائل کی طرف توجہ دینے کا تقاضا کرتی ہے۔ ڈیم فنڈ اکھٹے کئے گئے۔ وہ کہاں ہیں۔ علاوہ ازیں تمام ڈیموں خاص طور پر تربیلا اور منگلا میں سلٹ(ریت) اتنی بڑھ گئی کہ اب آدھا پانی بھی نہیں ٹھہرتا۔ انکی صفائی کے لئے کسی بیرونی کمپنی کو ٹھیکہ نہ دیا جائے کہ کراچی کو صاف کرنے کے ٹھیکے کے بعد، کراچی کا حال سامنے ہے۔ دونوں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے صفائی کے دعوئوں کے باوجود پرنالہ وہیں ہے۔

ہر دوسرے تیسرے مہینے پشاور بس ٹرمینل کے مکمل ہونے کی نوید گزشتہ ایک سال سے سن رہی ہوں۔ اس بڑھاپے میں یادداشت ابھی سلامت ہے تو آپکو بھی یاد کرا رہی ہوں۔ ہمارے صدر صاحب نے اس دفعہ یوم پاکستان پر جب دو تمغے دیے ہیں ان سے ایک معصوم اور دوستانہ سوال، آخر ابن صفی کو مرنے کے تیس سال بعد حسن کارکردگی اور مشہور اور منفرد شاعرہ فہمیدہ ریاض کو حقیر کا تمغہ دیا گیا ہے۔ پھر اس پر متضاد، ایک بےنام صحافی کو بطور خاص اعزاز دیا گیا ہے۔ آخر کونسے دانشور انکے ساتھ بیٹھ کر ایسے فیصلے کرواتے ہیں کہ پوری خلقت ہنستی ہے۔ یہیں مجھے یاد آیا کہ بلاول میاں نے اسمبلی میں ایک لفظ بے غیرت کسی حوالے سے استعمال کیا تو فوراً اسپیکر نے یہ کہہ کر حذف کردیا کہ یہ غیرپارلیمانی لفظ ہے۔ ہمارے کیا ساری دنیا میں اردو بولنے اور خاص کر بوڑھی مائیں لڑکا یا لڑکی کی کوئی حرکت دیکھ کر فوراً بے غیرت، بے شرم کہہ دیا کرتی ہیں۔ بزرگ مرد بھی نوجوانوں کو جھڑکنے کے لئے یہی لفظ استعمال کرتے ہیں یہ یاد مجھے یوں آیا کہ ہم لوگ ڈی جی خان میں عورتوں کا ایک جلسہ کررہے تھے۔ ساری عورتیں کھیتوں میں کام کرتی تھیں۔ جب اپنے مردوں کا ذکر کرتیں تو کہتیں شودا اے کردا، شودا اے کردا۔ ہم جو شہر سے گئے تھے۔ کہنے لگے کہ یہ عورتیں تو گالیاں دےرہی ہیں۔ تو مقامی عورتوں نے ہنس کر کہا ارے یہ گالی نہیں۔ یہ تو بے چارہ کے معنی میں اور روزمرہ میں داخل ہے۔ جیسے لکھنو میں بے تکلفی میں ’ابے‘ کہہ دیا جاتا تھا۔ ارے ڈیم سیلاب کا پانی اور عمران خان کی یاد دہانی پانی کم استعمال کریں، وہیں رہ گیا۔ پھر سوال ڈیم کب بنے گا۔