بلدیاتی حلقہ بندیاں: پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی کے تحفظات

October 03, 2019

بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے نئی حلقہ بندیوں کا سلسلہ جاری ہے ، یہ کام کمشنرز ،ڈپٹی کمشنرز کو سونپا گیا ہے لیکن ابھی سے اس کے بارے میں اعتراضات و شکوک وشبہات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ،نہ صرف ملتان بلکہ جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی ، عہدے دار و کارکن ان مجوزہ حلقہ بندیوں پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں ،ملتان میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ،جب پی ٹی آئی کے ایم این اے احمد حسین دیہڑ کے حلقہ میںایسی تجاویز پر حلقہ بندیاں کی گئیں ،جس سے ان کے مطابق ان کے دو بڑے سیاسی مخالفین سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور سابق وفاقی وزیر ملک سکندر حیات بوسن کو سیاسی فائدہ پہنچ سکتا ہے ،اس صورتحال پر احمد حسین دیہڑ کمشنر ملتان کے پاس گئے اور انہوں نے ان مجوزہ حلقہ بندیوں پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ اگر یہ معاملہ احسن طریقہ سے حل نہ کیا گیا اور مسلم لیگ یا پیپلزپارٹی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ،تو وہ یہ معاملہ وزیر اعظم عمران خان کے نوٹس میںلائیںگے ،یہاںیہ امر قابل ذکر ہے کہ حلقہ بندیوں کا تعین کرکے اب ان پر اعتراضات طلب کئے گئے ہیں،جس پر ہرحلقہ سے اعتراضات وصول ہورہے ہیں ،جس کی وجہ سے امکان ہے کہ یہ معاملہ بلدیاتی انتخابات کے دیگر امور کی طرح طول کھینچے گا اور بلدیاتی انتخابات جس کے بارے میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیاگیا۔

مذید تعطل کا شکار رہیں گے ،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں قومی و صوبائی اسمبلی کی اکثریت سیٹیں تحریک انصاف کے پاس ہیں لیکن پچھلے بلدیاتی انتخابات میں جو یونین چئیرمین ،وائس چئیرمین ،کونسلرز اور دیگر بلدیاتی نمائندے منتخب ہوئے تھے ان کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ ن کے ساتھ تھا ،وہ اب بھی اپنے حلقوں میںسرگرم کردار ادا کررہے ہیں ،جبکہ پی ٹی آئی کے نمائندے ابھی تک گومگوں کی کیفیت میںہیں کہ ان کا حلقہ کس یونین کونسل میںآتا ہے اور وہاںسے پارٹی کس کو ٹکٹ دیتی ہے۔

وزیراعظم کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب نے ان کی عوامی سطح پر مقبولیت اور پذیرائی میں جو اضافہ کیا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ان کی تقریر بر موقع، بر محل ، جاندار اور ٹودی پوائنٹ (To the point) تھی جس نے عوام کو ایک ایسی صورتحال میں مبتلا کردیا کہ جس میں فخر اور دنیا کے تناظر میں پاکستان کی وقعت کا حوالہ نمایاں رہا، سیاسی سطح پر ملک کے اندر جس طرح وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن ایک محاذ بنانے کی کوشش کررہی ہے اور مولانا فضل الرحمن اپنے ’’آزادی مارچ ‘‘ کے ذریعے حکومت گرانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں اس صورتحال میں عمران خان کی یہ تقریر ایک ایسا دفاعی حصار بن گئی ہے جو اپوزیشن کے لئے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے کیونکہ عوام نے اس بیانیہ کو عملاً مسترد کردیا ہے جو مولانا فضل الرحمن لے کر چل رہے ہیں، یعنی ان کی یہ بات کہ موجودہ حکومت اسلام دشمن ہے اور اندر خانے انہوں نے اپنے آزادی مارچ کو ’’ تحفظ ناموس رسالت ‘‘ کا نام بھی دے رکھا ہے ۔

وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے ایک بڑے فورم پر اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے واضح موقف اپنایا اور جس میں اسلام کو انتہا پسندی کے ساتھ جوڑنے کی سخت مذمت کی اور یہ بھی بتایا کہ جب مغرب میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز بات کی جاتی ہے تو اس ککا مسلمانوں کے دلوں پر انتہائی دردناک اثر ہوتا ہے ۔

اتنی بڑی وکالت ، اسلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنی شدت کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے والے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اب یہ بیانیہ اختیار کرنا انتہائی مشکل ہے کہ وہ پاکستان کو دین سے دور کرنا چاہتے ہیں یا یہودی لابی کے لئے کام کررہے ہیں۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے اس سات روزہ دورے نے جہاں عالمی سطح پر ان کے امیج کو بڑھایا ہے وہیں ملک کے اندر بھی ان کے بارے میں مثبت رائے قائم ہوئی ہے اور ملک کے اندر گڈ گورننس کے فقدان کی وجہ سے جو منفی تاثر پیدا ہوا تھا اسے اس کشمیر کی وکالت اور اسلام کے لئے بلند آہنگ بیانیہ نے بڑی حد تک زائل کیا ہے۔

ایک اور بات جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر اپنی اس مہم جوئی میں تنہا رہ جائیں گے وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا ’’ صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں ‘‘ جیسا رویہ ہے۔

مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے موقع پر کچھ یقین دہانیاں سامنے آجاتی ہیں لیکن عملاً کچھ ایسا نہیں لگ رہا کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہم رکاب ہونے کے لئے تیار ہیں کیونکہ بلاول بھٹو زرداری اپنی علیحدہ مہم جوئی کا اشارہ دے رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) بھی کہہ مکرنیوں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس کا بھی دو ٹوک بیانیہ سامنے نہیں آرہا اور اگر مگر کی صورتحال نے خاصہ کنفیوژن پھیلا رکھا ہے ، ایسے میں ایک ایسی بڑی تحریک چل سکے گی کہ جو حکومت کو گھر بھیج سکے پھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اداروں کی طرف سے عمران خان کی مکمل حمایت کا سلسلہ جاری ہے اور اقوام متحدہ میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر پر ادارے کی اعلیٰ شخصیت کے ٹوئیٹس اس بات کا ثبوت ہیں کہ ادارے نہ صرف ان کے بیانیہ کو سراہا رہے ہیں بلکہ مکمل حمایت بھی کررہے ہیں ایسے میں ان کے خلاف ایک مذہبی جماعت کی یہ مہم جوئی مولانا فضل الرحمن کے لئے سیاسی تنہائی کا باعث بن سکتی ہے ۔