اقبال، جناح اور مذہبی کارڈ؟

October 11, 2019

1936ء میں بادشاہ حسین نے انٹرویو کرتے ہوئے علامہ اقبال سے سوال پوچھا تو علامہ نے کہا ’’میری قوم کی ترقی کا راز سیاسی آزادی میں پنہاں ہے۔

برطانوی استعمار راستے کی بڑی رکاوٹ ہے اور ہندو کا غلبہ ہمارے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔دونوں طرف کا دبائو ہمیں کچل رہا ہے۔‘‘ایک اور سوال کے جواب میں کہا ’’مسلمانوں کی فلاح و بہبود میری ساری زندگی کا مشن رہا ہے۔‘‘

اس وقت میدان سیاست میں خاصے معروف نام موجود تھے لیکن علامہ کی نظر محمد علی جناح پر کیوں پڑی اور پھر اپنے حسن انتخاب کی اسیر بن کر کیوں رہ گئی۔ اس سوال کا جواب علامہ کی زبانی سنیے۔

’’مسلمانوں کی قیادت کا اہل اگر کوئی شخص ہو سکتا ہے تو وہ صرف جناح ہے اس لئے کہ وہ دیانت دار ہے، انہیں خریدا نہیں جا سکتا، وہ مخلص ہے، انہیں اسلام کے دین حق ہونے کا کامل یقین ہے،

وہ بے خوف ہے، انہوں نے انگلستان میں رہ کر مغربی جمہوریت کا گہرا مطالعہ کیا ہے، جمہوری عمل کا جتنا تجربہ انہیں حاصل ہے کسی اور کو نہیں.... وہ کانگرس کی ذہنیت کا بھی بھیدی ہے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ انہیں عوام میں مقبولیت حاصل نہیں، علامہ نے فرمایا ’’یہ میری پیشین گوئی ہے کہ مسٹر جناح بہت جلد ایک عوامی ہیرو بن جائیں گے ‘‘۔

راجا حسن اختر نے پوچھا ’’کیا ہندوستان میں کوئی ایسا شخص ہے جسے ہم آپ کی خودی کا مظہر کہہ سکیں؟‘‘ علامہ نے جواب دیا ’’ہاں بالکل ہے اور وہ محمد علی جناح ہے۔اکتوبر 1937ء میں قائداعظم نے پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے کہا ’’آج کل مسلمانوں کا سب سے اہم فرض یہی ہے کہ وہ اپنی تنظیم کریں اور ہندوستان کی واحد اسلامی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے ایک محاذ پر جمع ہو جائیں۔

ہماری امیدیں نوجوانوں سے وابستہ ہیں۔ میں آپ کی کامیابی کیلئے دست بدعا ہوں۔‘‘

علامہ اقبال نے قائداعظم کی تائید میں بیان جاری کیا اور فرمایا ’’میں مسٹر جناح کے ایک ایک لفظ کی تائید کرتا ہوں۔ مسلمان نوجوانوں کو اس سے بہتر مشورہ نہیں دیا جا سکتا‘‘۔

علامہ ان دنوں بیمار تھے، صاحب فراش تھے، اپنے احباب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’بات یہ ہے کہ انگریز ہندوستان میں پارلیمانی طرز حکومت کے نام پر اپنی شہنشاہیت کو مضبوط کر رہا ہے۔

جناح اس جال کی ایک ایک گرہ سے واقف ہے۔ وہ بیچارہ صرف یہ کہتا ہے کہ مسلمان اس نظام حکومت کے ماتحت کہیں خسارہ نہ اٹھائیں اس لئے وہ اپنی سیاسی بصیرت کی روشنی میں آپ کو ہوشیار ہو جانے کی تلقین کرتا ہے۔‘‘

قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی اجلاس میں کانگرسی وزارتوں کے طرزعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا بندے ماترم مسلم دشمن ترانہ ہے۔ بندے ماترم سے شرک کی بُو آتی ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف نعرہ ٔجنگ ہے۔

علامہ کو جب اخبار میں قائداعظم کا بیان پڑھ کر سنایا گیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ فرمایا ’’مسلمانوں کو چاہئے جناح کے ہاتھ مضبوط کریں۔ لیگ کامیاب ہو گی تو صرف جناح کے سہارے.... اس کے سوا کوئی مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں۔‘‘ (بحوالہ اقبال اور قائداعظم از پروفیسر احمد سعید، اقبال اکادمی پاکستان)

تھوڑے ہی عرصے بعد 21اپریل 1938ء کو علامہ وفات پا گئے لیکن اس جہان فانی سے رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے قائداعظم کو 1936-37ء میں نہایت پُرمغز خطوط لکھے جن میں قائداعظم کی سیاسی و فکری راہنمائی کی اور ان کو مسلمانوں کیلئے آزاد مملکت کے مطالبے پر قائل کیا۔

اپنی وفات سے گیارہ ماہ قبل علامہ اقبال نے جناح کے نام خط مورخہ 28مئی 1937ء میں لکھا ’’مسلم لیگ کو آخرکار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہورکی .... کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو ہمارے عوام کیلئے باعث کشش نہیں ہو سکتی۔

نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں بالائی طبقوں کے بچوں کیلئے مختص ہیں... روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہوتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے؟ مسلم لیگ کے مستقبل کا سارا انحصار اس بات پر ہے...

خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس کا حل موجود ہےلیکن شریعت اسلام کا نفاذ ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر ناممکن ہے۔مسلم ہندوستان کے مسائل کا حل اسی میں ہے کہ ملک کو ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبے کا وقت نہیں آ پہنچا؟‘‘

علامہ نے انہی خطوط میں قائداعظم کو لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس بلانے کی تجویز دی۔ اسی جذبے کے تحت مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس مارچ 1940ء میں لاہور میں منعقد ہوا جس میں قراردادلاہور (23مارچ 1940ء) منظور کی گئی جو بہت جلد قرارداد پاکستان کہلائی۔

قرارداد پاکستان کی منظوری کے قائداعظم نے علامہ اقبال کو فلاسفر اور اپنا گائیڈ قرار دیا اور کہا کہ اگر آج علامہ زندہ ہوتے تو کس قدر خوش ہوتے کہ ہم نے وہی کر دیا جو وہ چاہتے تھے۔

یہی وہ فکری پس منظر تھا جس میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے 22مارچ 1940ء کو یہ واضح کیا کہ ’’ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلاسفیوں، سماجی رسومات اور لٹریچر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تہذیبیں متضاد ہیں، ان کی تاریخ کے مآخذ، ہیرو مختلف ہیں۔ ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن تصور ہوتا ہے‘‘ ایسی دو قوموں کو جن میں ایک اقلیت ہے، دوسری اکثریت ایک ریاست میں بند کر دینا تباہی کا باعث ہو گا۔

اب آپ مجھے بتائیں کہ اقبال اور قائداعظم نے کب اور کہاں مذہبی کارڈ استعمال کیا۔ ان کی ساری جدوجہد ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کیلئے مختص تھی جسے وہ مسلمانوں کی بقا کیلئے ناگزیر سمجھتے تھے جبکہ مذہبی، لسانی، علاقائی کارڈ استعمال کرنے کا مقصد اقتدار کا حصول یا مخالف حکومت کو گرانا یا انتشار پھیلانا یا نفرت کے بیج بو کر علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینا ہوتا ہے۔

اس کے برعکس اقبال اور قائداعظم کا نصب العین مسلمانوں کا اتحاد اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ خدا کے لئے ان کی بے لوث، مخلص، تاریخی جدوجہد کو کارڈ نہ کہیں۔