صبح کی سیر

October 12, 2019

محمد حسین آزاد

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی

عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی

خوشی کا تھا وقت اور ٹھنڈی ہوا

پرندوں کا تھا ہر طرف چہچہا

یہی جی میں آئی کہ گھر سے نکل

ٹہلتے ٹہلتے ذرا باغ چل

چھڑی ہاتھ میں لیکر گھر سے چلا

اورپھر باغ کا سیدھا رستہ لیا

وہاں اور ہی جا کے دیکھی بہار

درختوں کی ہے ہر طرف اک قطار

کھلے پھول ہیں اس قدر جا بجا

کہ خوشبو سے ہے باغ مہکا ہوا

کہیں آم ہیں اور کہیں ہیں انار

کہیں کھٹے میٹھے ہیں دیتے بہار

خدا نے ہماری خوشی کے لیے

یہ سامان سارے ہیں پیدا لیے

سویرے ہی اٹھے گا جو آدمی

رہے گا وہ دں بھر ہنسی اور خوشی

نہ آئے گی سستی کبھی نام کو

کرے گا خوشی سے وہ ہر کام کو

رہے گا وہ بیماریوں سے بچا

یہ ہے سو دواوں سے بہتر دوا