سوشل میڈیا اور آزادیٔ اظہار کا حق

October 15, 2019

سوشل میڈیا جدید دور کی وہ سہولت ہے جس نے کرۂ ارض پر بسنے والے ہر شخص کے لئے اپنی آواز پوری دنیا تک پہنچانا ممکن بنا دیا ہے۔ یہ سہولت ایسی حکومتوں کے لئے قابلِ فہم طور پر تکلیف دہ ہے جو اپنے شہریوں کی آزادیٔ اظہار کو محدود کرنے کی خاطر روایتی ذرائع ابلاغ پر مختلف النوع پابندیاں عائد کرکے تنقید سے بچنے کا بندوبست کیا کرتی تھیں لیکن یہ موقف بھی یقیناً درست ہے کہ سوشل میڈیا کو لامحدود آزادی حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت، اخلاق باختگی اور ریاست مخالف نظریات پھیلانے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں بھی اس حوالے سے قانون سازی کی مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان میں بھی اس مقصد کے لئے پچھلے کئی برسوں سے قانون نافذ ہے تاہم منظر عام پر آنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سوشل میڈیا پر قابلِ اعتراض مواد کے خلاف کارروائی کے لئے پی ٹی اے کی آن لائن پورٹل تک تیس سے زائد وفاقی اور صوبائی اداروں کو رسائی دیدی گئی ہے اور 9لاکھ 24ہزار 197ویب سائٹس نفرت انگیزی، توہینِ عدالت، گستاخانہ مواد، پورنو گرافی اور ریاست مخالف نظریات پر مبنی ہونے کے باعث بلاک کر دی گئی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرم ہونے پر ایف آئی اے کا پراسیس شروع ہو جائے گا جبکہ شہریوں کی شکایت پر ہی معاملہ سائبر کرائم ونگ کے پاس جائے گا۔ یہ قانون اگرچہ وقت کی ضرورت ہے لیکن اس کے نفاذ میں یہ امر لازماً ملحوظ رکھا جانا چاہئے کہ ریاست کے خلاف اظہارِ خیال اور حکومت کی کارکردگی پر تنقید دو بالکل مختلف باتیں ہیں۔ حکومت سے اختلاف اور اس کے اقدامات پر نکتہ چینی ہر شہری کا آئینی حق ہے لہٰذا سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو حکومت کے خلاف اظہارِ خیال پر کارروائی کا ہدف بنانا آئین کی کھلی خلاف ورزی قرار پائے گا اور اس بنا پر حکومت کو اس سے مکمل اجتناب کرنا ہوگا۔