پاکستانی سیاسی تاریخ کے دوراہے

October 17, 2019

72سالہ پاکستانی تاریخ میں کئی مراحل اور بحرانی کیفیت میں ہم ایسے دوراہے پر آکھڑے ہوئے کہ ایک جانب ہموار صراطِ مستقیم جانبِ منزل، دوسری جانب رکاوٹوں سے اٹی ٹیڑھی میڑھی گم راہ۔ بڑا المیہ ہے کہ ہم نے گمراہی اختیار کی اور عوام الناس نے بہت تکلیفیں اٹھائیں، حکومتیں، سیاستدان اور دوسری مقتدر طاقتیں گمراہی پر چل کر بظاہر تو اپنی اپنی مدتِ اقتدار کی بڑی بینی فشری بنیں لیکن عوام پر عذاب بننے کی طرح یہ خود بھی عذاب میں آئیں بلکہ عذابِ عظیم میں۔ یوں ملک و قوم خسارے کی کیفیت سے نکل ہی نہ پائے جبکہ ہم، حکام اور عوام خود غرضی، گروہی تعصب اور حرص و لالچ کے خود ہی اسیر ہو کر انجام کار پر جو کچھ بنتے گئے، وہ آج سب کچھ ہمارے سامنے اور بہت واضح ہے۔ حالانکہ اپنی ذات و گروہ کے گنبد سے باہر نکل کر ذہنی وسعت، حقیقت پسندی اور رواداری سے اتحاد و امانت مختلف النوع اختلافات کو اپنے ساتھ رکھتے ہوئے بھی سیدھی اور واضح راہیں اختیار کرتے رہتے تو آج پاکستان اپنے قیام کی آئیڈیل شکل میں نہ بھی ہوتا تو اپنے پوٹینشل اور دیگر خواص کے باعث محتاط اندازے کے مطابق چین، کوریا، ترکی، ملائیشیا کے برابر یا ان کے قریب قریب ایشین ٹائیگر تو لازم ہوتا۔ اجتہاد کی راہ اختیار کر کے، اسرائیل کے سے مذہبی جذبے سے اپنی آئیڈیالوجی پر عملاً منہمک ہو جاتے، فتوئوں، دعووں، وعدوں، تقریروں اور محض خواب و خیال سے پرہیز کرتے تو آج اسرائیل بھی اپنی حدود میں ہوتا۔ پاکستانی ماڈل ریجن کے مسلم ممالک پر بہت زیادہ اثر انداز ہو چکا ہوتا اور ہم اسرائیل کی سی جاندار، پُراعتماد اور پُرعزم قوم ہوتے اور مانے جاتے۔ لیکن ہمارے ہوسِ اقتدار میں ڈوبے، عوام کے زور پر آمریت میں رنگی گورننس کے حامل اور قومی خزانے کی لوٹ مار جیسی تباہ کن کرپشن میں لتھڑے حکمران عوام کی تقدیر بدلنے اور ایشیائی ٹائیگر بنانے کے خواب دکھاتے خود تو مکمل گمراہ تھے ہی قوم کو بھی اس راہ پر لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور کامیاب بھی رہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا گمراہی ہو سکتی ہے کہ بحیثیت مجموعی ذمہ دار، دیانت دار، اہل، تعلیم یافتہ اور مہذب شہریوں پر قومی امور میں حصہ لینے کے دروازے مکمل بند کر دیئے گئے ہیں۔

ہمارا ترقی اور بظاہر اقتصادی استحکام کا عشرہ عوامی تحریک کے نتیجے میں ختم ہو رہا تھا تو مغربی اور مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم سے کئے گئے مطالبات حکومت، اپوزیشن مذاکرات میں تسلیم کیے گئے۔ فقط ون یونٹ توڑ کر سابقہ صوبے بحال کرنے کا مطالبہ آئندہ منتخب حکومت پر چھوڑ دیا گیا۔ مذاکرات میں الیکشن 70کی پارلیمان کے لئے اکثریتی جماعت بننے والی عوامی لیگ کے قائد مجیب الرحمٰن بھی شامل تھے لیکن مذاکرات کا بائیکاٹ کرکے ایجی ٹیشن شروع کرنے والے بھٹو اور بھاشانی نے اپنا وجود اور طاقت اتنی دکھائی کہ نتیجہ خیز ہونے کے باوجود مذاکرات بے ثمر ہوئے اور مارشل لاء لگ گیا۔

پھر متحدہ ملک میں آگ کا کھیل یوں کھیلا گیا کہ انتخابات کرا کر اسمبلی کا اجلاس تو طلب کر لیا گیا لیکن مغربی پاکستان کی اکثریتی نومولود پی پی جماعت کے قائد بھٹو صاحب اور صدر جنرل یحییٰ کے گٹھ جوڑ سے اجلاس ملتوی کر دیا گیا، مشرقی پاکستان میں اشتعال انگیز ردِعمل کو دبانے کیلئے ملٹری آپریشن کیا گیا تو بھٹو صاحب نے قوم کو یقین دلایا ’’پاکستان بچ گیا‘‘۔ آگ اور بھڑکی، بھارت نے مشرقی پاکستان کو تر نوالا جانا، مداخلت ہوئی، جنگ ہوئی جس کے دوران ہم پھر اک بار دوراہے پر آئے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پولینڈ کی قرارداد کے ٹکڑے کرکے سیاسی مذاکرات سے میز پر بیٹھ کر ’’بنگلہ دیش‘‘ کے قیام کو ماننے کے بجائے، ہتھیار ڈال کر یہ ہی صدمہ سہنے کو ترجیح دی گئی، یعنی فقط ملک کے دو ٹکڑے ہونے کی سیاسی شکست ہی کیوں، ساتھ فوجی شکست اور ہزاروں فوجیوں اور سویلین کی قید بھی۔

آج پھر پاکستان دوراہے پر ہے۔ اگرچہ ایک طرف پاکستان اپنی انتہائی ثمر آور نئی جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک حیثیت کے ساتھ علاقائی اور عالمی سیاست میں بے حد اہمیت اختیار کر گیا ہے تو دوسری جانب پاکستان کو ایک بلند درجے کی عالمی مقبولیت کی قیادت نصیب ہوئی ہے، جو ملک کی سلامتی اور خارجی امور میں بیش بہا تو داخلی امور اور گورننس میں بالکل ادھوری اور نحیف، اس کے باوجود پاکستان کی تابناکی کی راہ سامنے ہے۔ گورننس کا گرے ایریا وزیراعظم کے باکمال ہوتے ہوئے بھی بہت بڑا ہے، اب ایک اہل، مستعد، تعلیم یافتہ اور ماہرین کی ٹیم کو مکمل نااہل اور مشکوک ٹیم سے تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔ احتساب کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپوزیشن (پارلیمانی، مولانا صاحب والی نہیں) سے کوئی اختراعی حل کے لئے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔ این آر او نہ کریں، پلی بارگینگ کو بھی دفع کریں، زیادہ سے زیادہ ریکوری اور بڑے بڑے مجرموں کے ساتھ تمام چھوٹوں کو بھی یکساں رعایت کی بنیاد پر متفقہ قانون سازی سے کوئی راہ نکالی جائے۔ اور یہ جو مولانا صاحب اپنے کارکنوں کو مکتی باہنی کا سا رنگ دکھا کر ڈرا رہے ہیں، یہ نہیں چلے گا۔ پاکستان فقط ایٹمی نہیں، روایتی عسکری صلاحیت میں بھی بھارت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 27فروری اس کی بڑی جھلک ہے۔ مولانا کے ’’اندازِ سیاست‘‘ بہت مشکوک ہوتے جا رہے ہیں۔ قوم کے لئے سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ کہاں سے اور کس وقت پر استعمال ہو رہے ہیں۔ وہ پاکستان اور حکومت کے باغی نہیں اپنے (اللہ بخشے) مرحوم والد گرامی کے شاندار اندازِ سیاست سے بھی بغاوت کر رہے ہیں لیکن اس پر بھارتی میڈیا میں جو جشن منایا جا رہا ہے اس نے بالآخر ہزیمت میں ہی تبدیل ہونا ہے۔