دھرنے کیلئے جواز نہیں ہے… ؟

October 17, 2019

فکرفردا … راجہ اکبردادخان
مولانا فضل الرحمٰن ملک کے سینئر ترین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں، پاکستان کے اہم ترین مسئلہ (کشمیر) پر وہ بمع برادران دو دہائیوں سے زیادہ تک چیئرمین کمیٹی اور دیگر عہدوں پر متمکن رہ چکے ہیں، 2018ء کے انتخابات کو کبھی وہ تسلیم کرتے ہیں اور کبھی وہ انہیں جعلی مینڈیٹ کا نام دیتے ہیں، جعلی ہونے کی شکل میں انہیں عمران خان کی طرح لوگوں کے پاس جا کر اپنی ناراضگی کی وجوہات بیان کرنی چاہئیں تھیں، وہ نہ ہی اس دھرنے کی ضرورت لوگوں کو سمجھا سکتے ہیں، پرامن احتجاج سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، ایک ماہ میں لٹھ بردار لوگوں کے زیر اہتمام مجوزہ دھرنے کیلئے حالات پیدا کر دینا اپ کے ارادوں پر وجہ تشویش ہے، ضروری ہے کہ آپ الیکشن معاملات کو ان کے عدالتی انجام تک لے جائیں اور اگر حالات آپ کو ریلیف مہیا نہیں کرتے تو عوام کے پاس اپنا کیس لے جائیں آپ یہ دونوں مراحل مکمل کئے بغیر دھرنا دینے جا رہے ہیں جس کے لئے جواز موجود نہیں ہے، آپ کو دھرنا اور آزادی مارچ میں سے کسی ایک پر کام کرنا چاہئے، کیونکہ خود آپ کی جماعت اس حوالے سے ایک واضح موقف اختیار نہیں کر رہی، اس وجہ سے موجود کنفیوژن آپ کے اس احتجاجی عمل کو ناکامی اور شرمندگی میں تبدیل کرسکتا ہے، آپ قومی سطح کے ایسے لیڈر ہیں، جو ہمیشہ اقتدار میں رہنا اپنا حق سمجھتے ہیں، اور طویل عرصہ بعد آپ بھائیوں کیلئے اقتدار سے باہر ہوجانا، یقیناً تکلیف دہ ہے، اقتدار میں رہتے ہوئے آپ کی پالیسیوں کی بنا پر ملک اپنی سلامتی کو حوالے سے جن مشکلات کا شکار ہے، آپ کو ان سے آگاہ ہونا چاہئے،اور اگر آپ دیگر مصروفیات کی بنا پر ملک کو درپیش مشکلات سے آگاہ نہیں ہیں تو آپ کو باخبر بنانے کیلئے سیکورٹی اداروں اور افواج پاکستان کے دروازے ہمہ وقت کھلے ہیں، جان لینا قومی مفاد میں ہوگا، کوئی دوسری بڑی سیاسی جماعت آپ کے دھرنے کی مکمل حمایت نہیں کر رہی، ہرجگہ واضح تقسیم نظر آرہی ہے، مولانا محترم آپ پچھلی دو دہائیوں سے ’’حکومتی سیاستدان‘‘ کے طور پر جانے جا رہے ہیں، اور حکومتی ماحول میں وقت گزارنے کیلئے آپ نے ہمیشہ تابع دارانہ پالیسیاں اختیار کرتے ہوئے اپنے معاملات کو تحفظ دیا ہے، حزب اختلاف سیاست نہ ہی آپ کے مزاج کا حصہ ہے اور نہ ہی آپ کی جماعت اس کی سیاست سے آگاہ ہے، آپ کی اتحادی جماعتوں کے اپنے ایجنڈے ہیں، ان کی جیلوں سے باہر نکلنے کی کوششیں سب پہ واضح ہیں، (ن) والے تو واضح طور پہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی آپ کے ساتھ شمولیت اس وجہ سے ہے کہ ان کے لوگ جیلوں میں ہیں، یہی بیانیہ کم و بیش پی پی والوں کا ہے، آپ کے اس مجوزہ احتجاج میں نہ ہی مرکزی نکات واضح ہیں اور نہ ہی آپ تاحال قوم کو یہ سمجھا سکے ہیں کہ آپ کا 26؍اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کیوں ضروری ہے؟ آپ کی مقتدر سیاسی حیثیت کو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے، اور اکثر اہم مواقع پر ماضی میں آپ نے جمہوریت پسند سوچوں کی آبیاری میں اہم رول ادا کئے ہیں، یہ آپ کے لئے نیا نہیں، آپ سیاسی معاملات پہ اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ آپ قومی مفاد میں اس موقع پر بھی احتجاج نہ کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے آپ اس دورانیہ میں وہ کچھ نہ کرسکے جس کی توقع تھی، عالمی اداروں میں ’’کشمیر فائل‘‘ دبی رہی مگر اس نااہلی کا ملبہ آپ اکیلے پہ نہیں ڈالا جاسکتا، اگرچہ آپ مشرف، زرداری اور نوازشریف حکومتوں کا حصہ رہے، ایل او سی پہ حالات، فروری 2019ء سے بھارتی فوجی اور سفارتی جارحیت اور ملک کے کمزور معاشی حالات کئی میں سے چند وہ اہم فیکٹرز ہیں جنہیں سامنے رکھتے ہوئے آپ کیلئے اچھا فیصلہ یہ ہے کہ آپ اپنے احتجاج کو موخر کردیں۔
آپ کے پاس یقیناً ایسے لوگوں کی معقول تعداد ہے جو آپ کے کہنے پر چل پڑیں گے، مگر اول یہ کہ آپ اس احتجاج کیلئے جوازیت پیدا نہیں کرسکے ہیں، ملک حالات جنگ میں ہونے کی وجہ سے اس احتجاج کا متحمل نہیں ہوسکتا، دوسری جماعتیں اور جے یو آئی مختلف ایجنڈوں پر کام کررہی ہیں یہ ایسے حالات ہیں جن میں ملک افراتفری اور انتشار کا شکار ہوسکتا ہے، جو یقیناً ملک کی کسی بھی جماعت کیلئے پسندیدہ ماحول نہیں ہوگا، انتخابات کیلئے بھی انہی وجوہات کی بنا پہ کیس نہیں بنتا۔
پی ٹی آئی حکومت کا مدارس ایجنڈا ملک کا امیج بہتر کرنے کے حوالے سے ایک مثبت سوچ ہے، نیشنل ایکشن پلان جس کا بیشتر حصہ مدارس میں اسی طرح کی تبدیلیاں لانے کا کہتا ہے نہ ہی نواز شریف حکومت کو برا لگا اور نہ ہی اسے قبول کرنے میں آپ نے ہچکچاہٹ محسوس کی، نئی حکومت کا اپنی سوچوں والے پروگرام لانے ان کا حق ہے، آپ بھی گفت و شنید کی راہ اختیار کرِتے ہوئے اصلاحات کے معترض حصے بہتر کروا سکتے ہیں، انہی مجوزہ اصلاحات پہ دیگر مالک اور مکتبہ ہائے فکر حکومت کے ساتھPROGRESSIVE ENGAGEMENT کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں کہیں سے بھی زیادہ مخالفت نہیں ہورہی، بظاہر آپ کا یہ احتجاج حکومت کو غیر مستحکم کرکے اسے گھر بھیجنے کا ایک پروگرام ہے جس میں آپ ناکام ہونے جارہے ہیں کیونکہ ملک سلامتی حوالہ سے ایک کم مستحکم مقام پر ٹھہرا ہوا ہے، معیشت بہتر ہونے کے اشارے دے رہی ہے ملک کے تمام اہم ادارے ایک ہی طرح کی سوچ کہ ملک ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، ریاستی ماحول کو احتجاجوں کی نظر کرنا درست نہیں اور حکومت کو اپنی مدت مکمل کرنے کا پورا حق ہے میں بندھے ہوئے ہیں، حکومت کا سربراہ جب اندرون اور بیرون ملک مقبولیت کی بلندیوں پہ ہے تو آپ کیلئے بہتر آپشن بھی یہی ہے کہ ملک پہ احسان کرتے ہوئے احتجاج کا نقصان دہ ماحول پیدا کرنے سے رک جائیں، اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔