ماحولیات پر برطانیہ میں دھرنے

October 19, 2019

روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
لندن میں آج کل ماحولیات کے ایشو پر شدید ہنگاموں کی لپیٹ میں ہے۔ یہ مظاہرے یا ہنگامے Extinction Rebellionکی جانب سے منظم کئے جارہے ہیں۔ جنہیں میڈیا XRکے مختصر نام سے بھی یاد کررہا ہے۔ ان کے دھرنوں اور احتجاج نے سینٹرل لندن کی زندگی کو کئی روز تک مفلوج رکھا۔ ایئرپورٹوں کی پروازوں سے لے کر پارلیمنٹ میں داخلے تک سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے سب معطل تھا۔ ڈیڑھ، دو ہزار لوگ گرفتار ہونے کے باوجود مظاہرے تو ابھی جاری ہیں۔ جلوسوں میں شرکا کی تعداد لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ مظاہرین کیمپ بناکر رات کو لندن کی اہم سڑکوں پر ہی قیام کرتے ہیں۔ ان میں عورتیں، بچے، بوڑھے سبھی شریک ہی۔ لندن کی سڑکیں یوں محسوس ہوتا ہے جسے آبادیوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پہلے 8 دن تو صبر کا مظاہرہ کیا لیکن اب وہ انہیں اہم شاہراہوں پر جمع نہیں ہونے دیتے۔ XR ایک پر امن سول نافرمانی کی عالمی تحریک ہے۔ جس نے ایک سال میں ہی عالمی سطح کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ماحولیات اتنی تیزی سے آلودہ ہورہا ہے کہ کرہ ارض پر ہر طرح کی زندگی معدوم ہونے کی جانب جارہی ہے اور ماحولیاتی ایمرجنسی کا نفاذ ناگزیر ہے۔ اس تباہی سے پہلے اسے روکنا ضروری ہے۔ یہ پندرہ روز کےلیے شروع کیا جانے والے احتجاجی سلسلہ دنیا بھر کے 60 مراکز میں بیک وقت شروع کیا گیا ہے جن میں برلن، ایمسٹر ڈیم، نیویارک اور سڈنی بھی شامل ہیں اس وقت دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ممبران کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ کرہ ارض پر ہر طرح کی مخلوق کو معدوم ہونے سے بچایا جائے۔ ترقی کے نام پر کارخانوں سے جو زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ انہوں نے آبی اور زمینی اور فضائی ہر مخلوق کی نہ صرف زندگی کی کوالٹی کو متاثر کیا ہے۔ بلکہ زندگی کو مکمل خاتمے کی جانب دھکیلنا شروع کردیا ہے۔ فضا، پانی اور خشکی ہر جگہ زہریلے اور مہلک جرثومے ہر جاندار کے لہو اور رگوں میں داخل ہورہے ہیں۔ جسے روکنا بے حد ضروری ہے۔ XRکا مطالبہ ہے کہ 2025 تک یہ خطرناک کیمیکلز کا اخراج نہ صرف فوری طور پر روکا جائے بلکہ 2025 تک صفر پر لایا جائے۔ وہ اس کے لئے ایک خصوصی ادارے کا قیام چاہتے ہیں جو ماحولیات کو کنٹرول کرنے کیلئے فوری تجاویز دے۔ وہ تجاویز حکومت کودے کر اور ان پر فی الفور عمل درآمد شروع کردیا جائے۔ گو کہ حکومتیں ماحولیات کو ایسے جراثیم سے پاک رکھنے کیلئے اقدامات کرتی رہتی ہیں۔ XR والے پوری دنیا کو آلودگی سے پاک بنانا چاہتے ہیں اور فوری عملدار آمد چاہتے ہیں۔ یہ دلچسپ تحریک ہے جو تیسری دنیا کے ایشوز سے بالکل مختلف ہے۔ تیسری دنیا میں ماحولیات کی صفائی کو بہت کم اہمیت حاصل ہے، کیونکہ یہ بنیادی طور پر پیٹ بھرے لوگوں کا ایشو ہے۔ بھوک و افلاس والے معاشرے بنیادی پیٹ کی آگ بجھائیں یا ماحول کی آلودگی پر سر پکڑیں۔ ایسے ایشوز ویسے بھی شعور کی خاص سطح کے متقاضی ہیں۔ ویسٹ کے لوگ حقوق انسانی، گلوبل وارمنگ، اقتصادی Globalization وغیرہ جیسے ایشوز پر نہ صرف آواز اٹھاتے رہتے ہیں بلکہ ان ممالک میں ان ایشو پر بننے والی تنظیمیں بہت موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ اینٹی گلوبلائزیشن تحریک نے برطانیہ اور یورپ میںکئی دفعہ لاکھوں مظاہرین کے ساتھ اپنا احتجاج رجسٹر ڈکروایا ہے۔ یہ ایشوز آج کے ترقی یافتہ معاشروں اور کشادہ ذہنوں کے ایشوز ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہوائی جہازوں کی پروازیں محدود کرنی چاہئیں۔ برطانیہ کو پن بجلی سے انرجی حاصل کرنی چاہیے۔ اس گروپ کے بانی گیلی بریڈ بروک نے کہا ہےکہ ہمیں اس وقت بہت دیر ہوچکی ہے۔ ہمیں معجزانہ پھرتی کے ساتھ اس کام کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ان احتجاجیوں نے بڑے نرالے طریقوں سے احتجاج کیا۔ یہ خود کو چپکنے کا گوند لگا کر بسوں اور ٹرینوں کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ ٹریفک کو کیمپ لگا کر بلاک کردیتے ہیں۔ سرکاری عمارتوں پر خون جیسا سرخ رنگ پھینکتے ہیں۔ دریا اور سمندروں میں رنگین کشتیاںکھڑی کرکے آبی ٹریفک بلاک کرتے ہیں۔ یہ رنگارنگ طریقوں کا احتجاج تخلیقی ذہنوں کی غمازی کرتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ اتنے پر امن لوگ ہیں کہ ان پر حکومت کا سختی کرنا قطعی بھلا عمل نہیں لگتا۔ اس احتجاج میںطلبہ کی بڑی تعداد شریک ہے۔ جو کہتے پھرتے ہیں۔ بریگزٹ بھولو، ماحولیات پر توجہ د و۔ بڑھتے درجہ حرارت کے انسانی اسباب کا خاتمہ کرو۔ بڑے شہروں کی بجائے چھوٹے قصبے بناؤ۔ آبادی پر کنٹرول کرو۔ پانی کا ضیاع بند کرو، ان مطالبات نے عالمگیر شکل اختیار کرلی ہے۔ اگر ان مظاہرین کو پسماندہ اور غریب ممالک دکھاتے جائیں جہاں ادویات کی کمپنیاں غریبوں پر اپنی ادویات کے تجربے کرتے ہیں۔ اچھی لکڑی کے جنگلات وہاں سے کاٹ کر ان کی مصنوعات مغرب کے سٹوروں کی زینت بنتی ہیں تو یہ مظاہرین شاید ان ممالک میں ہی اپنا احتجاج شفٹ کریں۔ دراصل یہ ماحولیات کا ایشو بھی طبقاتی ایشو ہے۔ جس کی تہہ میںمنافع خوری کی تیزی پنہاں ہے۔