الفاظ کی بڑھتی ہوئی گولہ باری

October 30, 2019

انسان نے تہذیب و تمدّن کی موجودہ منزل تک پہنچنے کے لیے بہت طویل سفر کیا ہے۔ وہ پتھر اور دھات کے زمانے سے نکل کر سائنس اور ٹیکنالوجی کی خیرہ کُن دنیا تک پہنچا ہے۔ اس دوران اس نے وحشی پن ، قبائلیت، جنگ و جدل اور عدم احساس کے چولے اتارے اورپُرامن بقائے باہمی اورجیو اور جینے دوکے فلسفے اپنائے۔

لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل سے اس نے پھر پیچھے کی جانب پلٹنا شروع کیا،انسانی تاریخ کی دو بہت خوں ریز جنگیں شروع کیں ،مزید نوآبادیاں بنائیں ،مزید اقوام کے گلوں میں غلامی کا طوق ڈالا،عالمی طاقتوں کو مزید استحکام ملا اورمزید زمینی وسائل پر قبضے کیے گئے۔ اور نہ جانے کیا کیا ہوا۔پھر تاریخ کا دھارا آگے بڑھا تو آزادی کی تحریکوں نے سر اٹھایا،شورشیں برپا ہوئیں،متعدد اقوام نے آزادی حاصل کی اور سکون کے کچھ وقفے آئے۔

لیکن پھر ایک نئی اصطلاح سامنے آئی ،یعنی’’ سرد جنگ‘‘۔یوں جنگ کے نئے میدان سجے۔پھر سرد جنگ ختم ہوئی تو ایک بار پھر ملکوں پر فوج کشی کا سلسلہ چلا۔وہ ختم ہوا تو اقتصادی جنگ اور اقتصادی غلامی کے حربے سامنے آئے۔آج دنیا عالم گیریت کے ماحول میں سانس لے رہی ہے،لیکن دہشت گردی کا عفریت اس کے سامنے برہنہ رقض کررہاہے اور علم،سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے چند اقوام اور ادارے اقوامِ عالم کے ذہن اور ان کی اقتصادیات پر قابض ہیں۔

یہ سب کچھ تو ہوتا رہا ،لیکن عام تاثر یہ رہا کہ انسان حیوانی جبلّت ترک کرتا جارہا ہے۔مگربالخصوص دس بیس برسوں میں دنیا بھر میںجو کچھ ہوا ہے اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ تہذیب اور تمدّن کی بہت سی سیڑھیاں چڑھ جانے کے باوجود انسان جب چاہتا ہے اپنے اصلی چولے میں سامنے آجاتا ہے۔خصوصا سیاست کے شعبے میں آج دنیا بھر میں جو مظاہر سامنے آرہے ہیں وہ بعض اوقات انسان کی جبلّتوں کا پھر سے مطالعہ کرنے پر مجبورکردیتے ہیں۔

خود اپنے ملک میں دیکھ لیںکہ دو چار برس سے یہاں الفاظ کی کیسی جنگ جاری ہے۔جلسے جلوس ہوں یا پارلیمان ایسی زبان استعما ل کی جارہی ہے کہ خود اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئر مین سینیٹ کو اراکین کو متنبہ کرنا اور ان جملوں کو کارروائی سے حذف کروانا پڑتا ہے۔ذرا دیکھیں تو یہاں کیا ہورہا ہے:

بیماری پر سیاست۔

ہمارامیچ بیمار نہیں تندرست نوازشریف سے ہے۔

ٹوئٹر پر مریم نواز اور جہاں گیر ترین میں الفاظ کی جنگ۔

این آر او کے معاملے پر لفظوں کی جنگ۔

فلاں غدّار ہے۔

زرتاج گل نے کیپٹن صفدر کو ریلو کٹا قرار دے دیا۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان الفاظ کی جنگ شروع۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ صرف پاکستان میں ہورہا ہو اور صرف سیاست داں کررہے ہوں۔ایسا دنیا بھر میں ہورہا ہے اور ہرشعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کررہے ہیں۔یقین نہ آئے تو ذیل کی چند سرخیاں پڑھ لیں:

پا ک و ہند کے سابق کرکٹرز میں الفاظ کی جنگ۔

مودی جوانوں کے خون کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں،راہول گاندھی۔

ایردوآن اور نیتن یاہو کے درمیان الفاظ کی جنگ۔

بھارت اور پاکستان میں جنگ ہو یا نہ ہو میڈیا میں جاری ہے۔

اداکارہ منشا پاشا اور ماڈل صدف کنول کے درمیان الفاظ کی جنگ۔

اسلام اورعامرخان مخالف الفاظ کی جنگ۔ ۔ ۔ ۔ جاویداخترسب پربازی لے گئے۔

امریکی صدارتی امیدواروں کے درمیان سرد الفاظ کی جنگ۔

’’فواد چوہدری تو ایسے لُڈّیاں ڈال رہے ہیں جیسے ۔ ۔۔۔‘‘ ٹوئیٹر پر پاک بھارت اعلیٰ عہدے داران کی آپس میں نوک جھوک۔

شریف خاندان کی چمک میری دی ہوئی ہے،آصف علی زرداری

اپریل 2012کے ابتدائی ایّام میں انتخابی مہم جاری تھی۔اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اوراس وقت کے صدرمملکت، آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ مقبولیت کے دعوےدار شریف برادران کے پاس اتنے بھی لوگ نہیں تھے کہ اپنے والد کا جنازہ پڑھا لیتے۔

ان کا جنازہ بھی داتا دربار لے جانا پڑا۔ شریف برادران کو دی گئی چمک میری ہے۔ جب چاہوں اسے چھن سکتا ہوں ۔لاہور پیپلز پارٹی کا ہے، شریف برادران تو خود مہاجر ہیں ۔ اتحادیوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے اور آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں کی ہوں گی۔

افسوس کی بات یہ ہےکہ آج کی طرح ان دنوں بھی بڑی جماعتوں کے درمیان قوم کو درپیش سنگین مسائل پر کوئی بحث نہیں ہو رہی تھی۔ آصف علی زرداری نے جس انداز میں اپنے حریف میاں نواز شریف پر حملہ کیا اس کا جواب ترکی بہ ترکی آیا۔

الفاظ کی سیاسی جنگ سے ظاہر ہوتا تھااور ہے کہ پاکستان کی سیاست میں مقابلہ سیاسی جماعتوں ،ان کے منشور اور پروگرام کے درمیان نہیں بلکہ شخصیات یا خاندانوں کے درمیان ہے۔آصف علی زرداری نے گورنر ہاوس لاہور میں جو انداز تخاطب اختیار کیاتھا وہ یقیناً کسی صدر مملکت کے شایان شان نہیں تھا، بلکہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر ایسی بات بھی کہہ گئے جس کی بعد میں ان کے ترجمان کو تردید کرنی پڑی تھی۔

تلخ حقیقت اور عام خیال یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست کا مقصد اقتدار میں آکربدعنوانی کرنےاور فوائد سمیٹنے کے سوا کچھ نہیں۔ہماری سیاست کا کوئی اصول نہیں اور جو لوگ اپنی جماعتوں میں اصولوں کی بات کرتے ہیں ان پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔

پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالوں گا،سڑکوں پر گھسیٹوں گا ، گردن سے سریا نکالنا آتا ہے ، اوئے ،نوازشریف، مودی کے یار،امپائر کے اشارے پر ناچنے والے،نیازی

میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے ادوارِ حکومت میں دونوں نے ڈٹ کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں اور ذاتیات تک کو سیاست کے میدان میں لایا گیا۔پھر سیز فائر ہوا۔پھر زرداری صاحب اور میاں صاحب کا ہنی مون پیریڈ آیا۔جب وہ ختم ہوا اور انتخابی دنگل کے لیے میدان سجا توعوام نے میاں شہباز شریف کو آصف علی زرداری کے بارے میں یہ کہتے سنا کہ پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالوں گا،سڑکوں پر گھسیٹوں گا،وغیرہ وغیرہ۔جواب میں وہ یوں گویا ہوئے :مجھے شریفوں کی گردن سے سریا نکالنا آتا ہے۔اسی دوران عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی تیزی سے آگے آنے لگی۔

پچھلے اور اس سے پچھلے انتخابات میں عمران خان نے بہت جارحانہ اندازمیں انتخابی مہم چلائی اور پھرمسلم لیگ نون کی حکومت کے خلاف طویل دھرنا بھی دیا۔انہوں نے متعدد مواقعے پر بڑے میاں صاحب کو اوئے ،نواز شریف،کہہ کر مخاطب کیا اور غالبا الیکشن کمیشن نے شکایت ہونے پر انہیں اس طرح مخاطب کرنے سے روکا بھی۔

ان کی جماعت کے لوگوں نے میاں صاحب کو مودی کے یار کہہ کر بھی مخاطب کیا۔جواب میں مسلم لیگ نون کے لوگوں نے انہیں امپائر کے اشارے پر ناچنے والے، نیازی کا خطاب دیا۔پھر موجودہ پارلیمان میںاپوزیشن نے ان کے لیے ایک خاص اصطلاح بنائی جس پر وہاں کافی تلخ کلامی ہوئی۔

کشمیر کا معاملہ، بھارتی شہری ملائیشیا سے ناراض ، مہاتیر نے الفاظ واپس لینے سے انکار کردیا

اس برس ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر بن محمد کے اقوام متحدہ میںکشمیر سے متعلق خطاب کے بعد سے بھارت میں سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ’’بائیکاٹ ملائیشیا‘‘ ٹرینڈ کرنے لگا تھا۔ مہاتیر نے اپنے خطاب میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔اقوام متحدہ کے ۔چوہترویں اجلاس سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر کے حوالےسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اس پر قبضہ کیا گیا ہے۔بھارت کو پاکستان کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھاکہ اقوام متحدہ کو نظر انداز کرنا اقوام متحدہ کے وقار میں کمی کا باعث بنے گا۔

ان کے خطاب کے بعد ان کی ٹوئٹ پر بھی کافی بھارتی شہری ناراض ہوئے تھے۔تاہم مہاتیر کا کہنا تھا کہ بھارتی تاجروں کی طرف سے ملائیشیاکے پام آئل کے بائیکاٹ کے باوجود وہ تنازع کشمیر کے ضمن میں بھارتی اقدامات کے حوالے سے اپنے الفاظ واپس نہیں لیں گے۔انہوں نے بھارتی تاجروں کی طرف سے ملائیشیا سے پام آئل کی درآمد کے بائیکاٹ کو ایک تجارتی جنگ سے تشبیہ دی تھی۔

خیال رہے کہ ملائیشیا پام آئل پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اوربھارت اس تیل کا سب سے بڑا خریدارہے۔اکتوبر کے مہینے میں ویجیٹبل آئل یا خورنی تیل کی تجارت کرنے والوں کی سب سے بڑی بھارتی تنظیم نے 21اکتوبر کو اپنے ارکان پر زور دیا تھا کہ وہ ملائیشیا سے پام آئل خریدنا بند کردیں۔

مہاتیر محمد کے خطاب اور ان کی ٹوئٹ کے بعد سے بھارت میں ہیش ٹیگ’’ 'بائیکاٹ ملائیشیا‘‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ٹوئیٹر استعمال کرنے والے بھارتی عوام اور بھارتی تجزیہ کار میجر ریٹائرڈ سورندیرا پونیا نے لکھا:گزشتہ سال آٹھ لاکھ بھارتی شہریوں نے ملائیشیا کا دورہ کیا تھا۔ ہمیں اس ملک میں سیاحت کا بائیکاٹ کرنا ہوگا کیوں کہ یہ ملک دہشت گردی میں تعاون کرنے والے پاکستان کی حمایت کر رہا ہے۔

ایک بھارتی شہری گیتا کپور نے اپنی ٹوئٹ میں کہا: مودی جی آپ کچھ ممالک کے دباؤ میں مت آئیے گا، کشمیر کے فیصلے پر بھارتی شہری آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ملائیشیا کے کئی شہریوں نے بھی سوشل میڈیا پر ناراض بھارتی سوشل میڈیا صارفین کی ٹوئٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک ملائیشین شہری کا کہنا تھا: سچ بولنے کی وجہ سے 'بائیکاٹ ملائیشیا‘ کے ہیش ٹیگ کا آغاز ہوا۔ کشمیر میں جو ہو رہا ہے وہ کسی بڑے انسانی بحران سے کم نہیں ہے۔

یہ ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا اصل چہرہ کہ اگر کوئی سچ بات کہے تو نہ صرف اسے برا بھلا کہا جائےاوراس سے تعلق توڑ لیا جائے،بلکہ اسے نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی جائے۔

بھارت میں اسلام اورعامرخان مخالف الفاظ کی جنگ

کچھ عرصہ قبل بھارت کی ریلائنس کمپنی کے سربراہ مکیش امبانی نے ہندو مذہب کی روایتی کہانی مہابھارت پر فلم بنانے کا ارادہ کیا۔ اس میں مرکزی کردار کے لیے اداکار عامر خان کا انتخاب کیا گیا۔ مختلف خبروں کے مطابق عالمی سطح کے ادیب کواس کا اسکرپٹ لکھنے کا کام سونپا گیا۔عامر خان کے مطابق مہابھارت کی کہانی میں ان کا پسندیدہ کردار ’’کارنا‘‘ ہے۔لیکن بہت سی افواہوں کے مطابق وہ اس میں’’کرشنا‘‘ کا کردار ادا کرنے والے ہیں۔تاہم اس بات کی تصدیق عامر خان یا مکیش امبانی میں سے کسی نے بھی نہیں کی۔

جیسے ہی ٹوئٹر پر یہ افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں، بہت سے لوگوں نے عامر خان کے ’’کرشنا‘‘ بننے پر سوال اٹھانے شروع کردیے ۔معروف بھارتی شاعر جاوید اختر نے اس ساری صورت حال میں دخل اندازی کرتے ہوئے نشان دہی کی کہ یہ فرقہ واریت پھیلانے کی ایک احمقانہ حرکت ہے۔

ایک فرانسیسی صحافی نے ہندوؤں سے سوال کیا کہ ایک مسلمان اداکارکرشنا کا کردار کیسے نبھا سکتا ہے؟ جوابی ٹوئٹ میں جاوید اختر نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے یاد دلایا کہ مہابھارت کے فرانسیسی ورژن میں ایک عیسائی اداکار نے کرشنا کا کردار ادا کیا تھا ۔ اس کے بعد ٹوئٹر صارفین اور جاوید اختر کے درمیان تنازع چھڑ گیا۔

لوگوں نے جاوید اختر اور عامر خان کو اسلامی انتہا پسند قرار دیا۔جاوید اختر اس بات کا جواب نہ دیتے، ایسا ہونا ناممکن تھا۔ انہوں نے بر صغیرکی معروف صوفی شخصیات اور شعراء کے نام یاد دلاتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر فرقہ واریت ہے جسے ان کے ملک میں پھیلایا جا رہا ہے۔ایک صارف نے ان سے پوچھا کہ کیا انہیں ہندو مذہب میں کرشنا اور رام کی اہمیت کا اندازہ ہے؟ جس کے جواب میں جاوید اختر نے کہا کہ اسے یہ بات پتا نہیں ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جو کوئی عقیدہ نہ رکھنے کے باوجود ہر مذہب کی عزت کرنا جانتے ہیں۔

کیا الفاظ کی جنگ بھی اصل کی مانند ہے؟

یہ جوآج ملکی اورعالمی سطح پرہر طرف الفاظ کی جنگ جاری نظر آتی ہے کیا وہ بھی اصل جنگوں کی مانند ہے اور کیا اس کا بھی کوئی ایجنڈا ہے؟بعض ماہرین سماجیات،نفسیات،حرب اورانفار میشن ٹیکنالوجی کی خفیہ جہتوں کو سمجھنے اور جاننے والوں کے بہ قول وسیع تناظر میں یہ بھی ایک جنگ ہے جو اصل جنگوں سے بھی زیادہ خطرناک اور دیرپا اثرات کی حامل ہے۔

یہ فورتھ اور ففتھ جنریشن وار فیئر ہے جس میں دشمن کے دماغ ، نظریا ت، خیالات ، تصورات اور نفسیات پر حملہ کیا جاتا ،وہ بھی بے خبری میں۔اس حملے کے نتیجے میں انسان کا دماغ عملا تو زخمی نہیں ہوتا،لیکن اندرونی طورپر اس کی چولیں ہل جاتی ہیں، اس کے سوچنے اور کام کرنے کا انداز بدل جاتا ہےاور وہ غیر محسوس طورپر دائیں سے بائیں یا اس کے برعکس کام کرنے لگ جاتا ہے۔

اس کی ابتدائی شکل سائیکو وارفیئر تھی۔اب اس میں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کا اضافہ کرکے مزید مہلک بنادیا گیا ہے۔سبلی مینل پیغامات کی تیکنیک استعمال کرکے اس تلوار کو دو دھاری بنادیا گیا ہے۔

اب یہ جنگ شعور اور لاشعور کی سطح پر لڑی جارہی ہے۔ دراصل لاشعور دماغ کا وہ حصہ ہے جو بہت محفوظ انداز میں کام کرتا ہے اور اس میں کوئی بھی بات داخل ہونے سے پہلے اس کی سیکیورٹی کلیرنس لی جاتی ہےجو ہمارا شعوری دماغ دیتا ہے۔

لیکن ماہرین نفسیات اور دماغ کی صدیوں سے جاری تحقیق کے نتیجے میں ماہرین یہ جان چکے ہیں کہ ہر حفاظتی نظام کی طرح دماغ کےحفاظتی نظام کو بھی بعض تیکنیک اختیارکرکے دھوکا دیا جاسکتا ہے۔چناں چہ اب کسی کے دماغ میں اپنی بات ڈالنے کے لیے وہ طرح طرح کی تیکنیک وضع کرچکےہیں۔

ان تیکنیک کا شکار بننے والا معمول کہلاتا ہے جسےیہ پتا ہی نہیں چل پاتا کہ کب اسے معمول بنالیا گیا۔ اگرچہ اب بھی بہت سے افراد کے نزدیک یہ سب باتیں محض سازشی نظریات ہیں،لیکن اسے کیا کہیں کہ مائنڈ سائنسز ، مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ آج کی دنیا کی بہت بڑی حقیقت بن چکی ہیں۔

یہ زمانہ ہائبرڈ وارفیئر کا ہے۔یعنی ہمہ گیرجنگ یامخلوط طریقہ جنگ، ایسی نادیدہ جنگ ہے جو ہر طرف برپا ہے اور ہر کوئی اس میں شامل ہے۔ جہاں پر یہ جنگ نظر نہیں آرہی وہاں بھی جاری ہے۔کہا جاسکتاہے کہ ایسی جنگ جو روایتی و غیر روایتی، باقاعدہ و بے قاعدہ، خفیہ وظاہری، غیر رسمی طریقہ جنگ واطلاعات اور سائبروار فیئر کو باہم ملاکرلڑی جائے ہائبرڈ وار فیئر (ہمہ گیر جنگ) کہلاتی ہے۔ اس طریقہ جنگ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جب تک نتیجہ خیز نہ ہوجائے یا باقاعدہ جنگ میں نہ ڈھل جائے اس میں ابہام ہی رہتا ہے۔

ہائبرڈ وارفیئرپرتحقیق کرنے والے نام ورتجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ ہدف عوام کو بنایا جاتا ہے۔ انہیں متاثر کرنے والی اطلاعاتی کارروائیاں یا ’’انفارمیشن آپریشنز‘‘شروع کیےجاتے ہیں ۔ روایتی طاقت کا استعمال بہت کم اور سائبرٹُول کی طاقت کا استعمال بھرپورہوتا ہے۔بہ راہ راست حملےیا طاقت دکھانے کے بجائے دھونس اوردھمکی کے اثرات کوزیادہ استعمال کیاجاتا ہے۔

کیا یہ برین واشگ ہے؟

کوئی شوشہ چھوڑ کر اس کا ردعمل دیکھنا اور اس کے بعد کوئی عمل کرنا آج کی دنیا میں عام سی بات ہے۔کہا جاتا ہے کہ مبینہ طورپر عالمی طاقتیں آج دنیا بھر کے لوگوں کے دماغ اور عالمی اقتصادیات پر قابو پانے کے لیےدماغوں پر کام کررہی ہیں۔ پہلے اس کے لیے سادہ سی اصطلاح برین واشنگ استعمال کی جاتی تھی۔لیکن اب یہ کام پہلے کی طرح سادہ نہیں رہا ہے۔

البتہ اس کی بنیاد وہ ہی ہے۔برین واشنگ یا ذہن کی دھلائی سے مراد غیر اخلاقی طور پر انفرادی یا اجتماعی سطح پر کسی کے خیالات کو اپنی مرضی کے تابع کرنا ہے۔ عموماً یہ عمل مفعول کی مرضی کےبغیر کیا جاتا ہے۔یہ کام نفسیاتی یا غیر نفسیاتی طریقوں کی مدد سے انجام پاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مفعول اپنی فکر، رویّے، جذبات اور قوتِ فیصلہ پر قابو نہیں رکھ پاتا۔

برین واشنگ یا مائنڈ کنٹرول کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کسی شخص سے اس کا ہر طرح کا ماحول اور خوش حالی چھین کر اور فلاح کی تمام راہیں مسدود کرکے اسے تنہا کردیا جائے ۔ دماغی امور کے ماہرین کے مطابق مائنڈکنٹرول کا شکارفرد حقیقت اور فکشن میں فرق نہیں کرپاتا اور جھوٹ کو بھی اپنے تئیں حقیقت ہی سمجھتا ہے۔

امریکی جریدے نیوز ویک کے مطابق خود کش حملہ آوروں کو مشن پر بھیجنے سے پہلے ان کی ایسی برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ موت سے بھی بے خوف ہو جاتے ہیں۔ خود کش حملوں میں استعمال کیے جانےوالے افراد کی سخت اور منظم طریقے سے برین واشنگ آسان کام نہیں، بلکہ اس کے لیےبہت تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے ۔

طالبان، داعش، جماعت الاحرار،لشکرِ جھنگوی اوردیگر د ہشت گرد گروہوں کے پاس ایسے افراد موجود ہیں جن کی برین واشنگ کی جا چکی ہے یا تاحال کی جارہی ہے ۔ ایسے افراد کو اس قسم کی کارروائیوںکے بعد اس انداز میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے کہ زیر تربیت افراد میں مزید جوش وخروش پیدا ہو جاتا ہے ۔

برین واشنگ کے عمل میں کسی بے ضرر اور عام انسان کوکسی کے مفادمیں استعمال ہونےپر تیار کرنے کے لیے اس کے سامنے ایک ہی بات یا نکتہ بار بار دہرایا جاتا ہے تاکہ وہ اسے ذہن نشین کرلے اور یہ یقین کرلے کہ برین واشر جو کچھ اسے سمجھا یا بتارہا ہے وہ سو فی صد درست ہے اوران باتوں پر بے دریغ عمل کرنا چاہیے۔ یعنی کسی کے خیالات کو افہام و تفہیم سے تبدیل کرنےاوراپنے الفاظ اور سوچ میں ڈھالنے کو برین واشنگ کہا جاتا ہے۔

یہ عمل سمجھنے کے لیے اس مثال پر غور کیا جاسکتا ہے کہ آپ روزانہ صبح سات بجے گھر سے روانہ ہوتے ہیں،لیکن کسی دوست کواکثر و بیش تر یہ بتاتے رہتے ہیں کہ میں صبح آٹھ بجے گھرسےروانہ ہوتاہوں۔باربارایک ہی بات دہرا نے سے آپ کا دوست اس بات پر یقین کرلے گا کہ آپ صبح سات نہیں بلکہ آٹھ بجے روانہ ہوتے ہیں۔

لیکن صرف آپ یہ جانتے ہیں کہ آپ گھرسےسات بجے روانہ ہوتے ہیں۔بہ ظاہر ان باتوں کا روزمرہ زندگی میں کوئی خاص عمل دخل نہیں، لیکن کئی اہم مقاصد کی تکمیل کے لیے منظم طریقے سے دنیا بھر میں انسانوں کے برین واش کئے جاتے تھے اور آج بھی کیے جارہے ہیں۔