پاکستان آرڈیننس فیکٹری

November 02, 2019

مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کی آپا دھاپی کے ہنگام میںکسی سنجیدہ اور خشک نوعیت کے موضوع پر کالم لکھنا پرلے درجے کی بدتہذیبی سے کم نہیںکیونکہ مولانا کے آزادی مارچ کے موقع پر’’کلمہ حق‘‘ کہنے کے لئےتو ان لوگوں کو بھی الیکٹرونک میڈیا پر اظہار خیال کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے جن کا نام لینے کی اجازت تک نہیں ہواکرتی تھی۔

صرف یہی نہیں بلکہ وہ عدالتی فیصلے جوانتہائی ناپسندیدہ تصور ہوا کرتے تھے، انہیں بھی دفعتاًمستند حوالے کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔ دل تو بہت چاہتا ہے کہ اس موقع کو غنیمت جان کراظہارِ رائے کی آزادی کے حق کو بھرپور استعمال کیا جائے اورقارئین کو بتایا جائے کہ چڑیا، طوطے، کبوتر اور کوے کیسی کیسی سنسنی خیز خبریں لارہے ہیں اوران معلومات کی روشنی میں بتایا جائے کہ آئندہ چند روز میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ مگر فدوی علم نجوم سے نابلد ہونے کے باعث قیافہ شناسی سے قاصر ہے اس لئے نسبتاً غیر اہم معاملے پر رائے زنی کرکے عزت بچاناچاہتا ہے۔

تمہید کچھ زیادہ طویل ہوگئی وگرنہ میں بتانا یہ چاہتا تھا کہ صدر مملکت جناب عارف علوی نے بیک جنبش قلم 8آرڈیننس پر دستخط کر دیئے ہیں۔ صدر مملکت کے دستخطوں سے جو آرڈیننس جاری کئے گئے ہیں۔

ان میں لیٹر آف ایڈمنسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹ آرڈیننس، انفورسمنٹ آف ایڈمنسٹریشن آف ویمن پراپرٹی رائٹس آرڈیننس، بے نامی ٹرانزیکشن آرڈیننس، سپیریئر کورٹس (کورٹ ڈریس اینڈ موڈ آف ڈریس) آرڈریننس، نیشنل اکاؤنٹبلیٹی (ترمیمی) آرڈیننس، لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی آرڈیننس اور وہسل بلوورز ایکٹ شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک آرڈیننس حکومت وقت کی دوراندیشی، معاملہ فہمی، بصیرت اور اِدراک کا مظہر ہے۔ مثال کے طور پر بے روزگاری کے اس پُرفتن دور میں اس سے بڑی سہولت اور کیا ہو سکتی ہے کہ آپ وہسل بلوورز آرڈیننس کے تحت کسی بھی شخص کی کرپشن سے متعلق اطلاع دیں اور لوٹی گئی رقم میں سے 20فیصد حصہ وصول کریں۔

چونکہ عدالتیں انصاف پر مبنی فیصلے کر رہی ہیں اور لوگوں کو انصاف کی بروقت فراہمی کے لئے کوشاں ہیں اس لئے سپیریئر کورٹس کورٹ ڈریس اینڈ موڈ آف ڈریس آرڈیننس کے ذریعے انہیں مخصوص لباس پہننے اور وگیں زیب سر کرنے کی زحمت سے نجات دیدی گئی ہے اور اب یہ معاملہ اعلیٰ عدالتوں پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جج صاحبان کے لئے کس قسم کا ڈریس کوڈ طے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بے نامی جائیدادوں اور بے نامی اکائونٹس کے حوالے سے بھی ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ البتہ ان سب قوانین میں اہم ترین نیب کا ترمیمی آرڈیننس ہے۔

جب قومی خزانے کو لوٹنے والے کسی چور یا ڈاکو کو گرفتار کیا جاتا تھاتو دہائی مچ جاتی تھی کہ یہ سیاسی قیدی ہیں لہٰذا عام قیدیوں کیساتھ رکھنے کے بجائے انہیں ’’اے‘‘یا ’’بی‘‘کلاس قیدیوں میں شمار کیا جائے یوں یہ لٹیرے جیل جا کر بھی وی آئی پی بن جاتے۔ جب قومی خزانہ لوٹنے والوںکے سیل میں سرکاری خرچ پر ایئر کنڈیشنر چلا کرتا تھاتو کپتان کا خون کھول اُٹھتا اور ان کے چاہنے والے بھی پیچ و تاب کھانے لگتے۔

مگر جمع خاطر رکھیے کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کی ایک شق کے تحت وہ قیدی جن کیخلاف پانچ کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہوں گے، وہ سیاسی قیدیوں میں شمار نہیں ہوں گے اور انہیں ’’سی کلاس‘‘دی جائے گی۔

اگر انصافیے مجھ پر لفافے یا پٹواری کی پھبتی نہ کسیں تو ایک سوال پوچھ لوں؟بیانیہ تو یہ ہے کہ شریف خاندان اور زرداری اینڈ کمپنی نے اربوں نہیں کھربوں روپے لوٹے ہیں۔ جب پانامہ کا مقدمہ زیر سماعت تھا تو بتایا جاتا تھا کہ نوازشریف نے 3000ارب روپے لوٹے ہیں مگر اب یہ پانچ کروڑ کا مذاق کیوں؟

پارلیمانی طرز حکومت میں قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ پر انحصار کیا جاتا ہے مگرآئین کے آرٹیکل 89کی شق 1کہتی ہے کہ اگر قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس نہ چل رہا ہو، صدر مملکت مطمئن ہوں کہ حالات فوری اقدام کے متقاضی ہیں تووہ حالات کی مناسبت سے صدارتی آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں۔

کوئی بھی صدارتی آرڈیننس 120دن کے لئے موثر ہوتا ہے۔ اس کے غیر موثر ہونے کی مدت میں بار بار توسیع بھی کی جا سکتی تھی مگر 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے یہ قدغن لگا دی گئی ہے کہ کوئی بھی صدارتی آرڈیننس جاری ہونے کے بعداس کی مدت میں ایک سے زائد مرتبہ توسیع نہیں کی جا سکتی۔

آئین کی روح کے مطابق صدارتی آرڈیننس وہ ایمرجنسی ایگزٹ ڈور ہے جسے تب استعمال کیا جاتا ہے جب سب راستے مسدود ہو جائیں۔ مگر پی ٹی آئی کی حکومت اس اختیار کو جس طرح سے بے دریغ استعمال کر رہی ہے اس کا موازنہ پرویز مشرف کے آمرانہ دورِ حکومت کے علاوہ کسی دور سے نہیں کیا جا سکتا۔ پرویز مشرف کے دور میں 2002سے2008ء کے دوران پارلیمنٹ سے 50قوانین منظور ہوئے جبکہ اس دوران 121صدارتی آرڈیننس جاری کئے گئے۔

اس دور کا بھارتی لوک سبھا کیساتھ موازنہ کیا جائے تو وہاں 248قوانین پاس ہوئے جبکہ 34صدارتی آرڈیننس جاری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی حکومت ابتدائی 14ماہ میں 18آرڈیننس جاری کر چکی ہے جبکہ اس دوران پارلیمنٹ سے محض 7مسوداتِ قانون منظور ہوئے ہیں۔ اس سے قبل صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پاکستان میڈیکل کمیشن کی تشکیل نو کی گئی۔

صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہی سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ گوادر کا انتظام سنبھالنے والی کمپنی کو 23سال کے لئےٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا ہے اس سے پہلے اس کمپنی کیساتھ جو معاہدہ ہوا، اس کے تحت یہ کمپنی 91فیصد منافع کی حقدار ہے جبکہ حکومت پاکستان کا شیئر محض 9فیصد ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور کاروباری سرگرمیاں مفقود یا کم ازکم محدود ہو چکی ہیں مگر آپ پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ کریڈٹ تو دیں ناکہ بھلے اقتصادی کسادبازاری کے باعث دیگر فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو رہے ہیں مگر پاکستان آرڈیننس فیکٹری خوب پھل پھول رہی ہے اور نہایت برق رفتاری سے آرڈیننس جاری ہو رہےہیں۔