چین کی جارح اقتصادیات

November 09, 2019

روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
چین کے بارے میں دنیا بھر میں مختلف تصورات سننے اور جاننے کو ملتے رہتے ہیں یہ کہ چین ایک سپر پاور بن چکا ہے یا بن جائے گا اور سپر پاور کا مطلب عام طور پر جو ذہنوں میں آتا ہے کہ سپر پاور وہ ہوتی ہے جو ہیبت ناک اور دنیا کو ڈرائے دھمکائے رکھتی ہے۔ دنیا میںلوٹ مار مچاتی ہے کمزور حکومتوں کے تختے الٹتی رہتی ہے اور اپنی مرضی کی حکومتیں بناتی رہتی ہے۔ امریکہ کے تجربے سے دنیا نے یہی دیکھا اور پرکھا ہے بلکہ پرانے سامراجی ممالک برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ بھی یہی کچھ کرتے آئے ہیں بلکہ یہ ممالک پراکسی کے قائل نہیں تھے۔ خود ہی جاکر نظم ریاست سنبھال لیتے تھے اور رعایا کو غلام بناتے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چین آہستہ آہستہ کدھر جائے گا۔ اب تک تو اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ چین نے ابھی تک دنیا میں جو اپنا سکہ منوایا ہے وہ پچھلی سپر پاورز کی طرح اسلحے، گولی اور فوج کشی کے بل بوتے پر نہیں بلکہ اقتصادی قوت سے منوایا ہے۔ امریکہ اس حوالے سے سردھاری تلوار ہے جس سے آئندہ دوچار برسوں میں سب سے زیادہ پیداوار کرنے والا ملک بن جائے گا۔ چین کے بارے میں مختلف اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ 30برسوں میں یعنی 2050 تک چین کا جی ڈی پی 124 ٹریلین تک جاپہنچے گا۔ ان کا خیال ہے کہ چین ابھی اگلے 30 سال میں ہی ماڈرن ریاست بنے گا۔ چینی دانشوروں کا ماڈرن ریاست کا کیا تصور ہے یہ بھی غور طلب سوال ہے۔ ابھی تک کی واحد سپر پاور سے لے کر سے جتنی بھی سپر پاورز رہی ہیں، ان کے ساتھ اپنی نو آبادیوں کی معیشتوں کی لوٹ مار کا پہلو بہت نمایاں ہے لیکن چین کے ساتھ ایسا نہیں ہے چین غربت سے اٹھنے والا طاقتور ملک بن رہا ہے جس نے روزانہ ایک ارب چالیس کروڑ لوگوں کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔ اس وقت تک چین کے کئی حصوں میںغربت تو ہے تاہم وہ خود کہتے ہیں کہ وہ اب تک صرف 70فیصد لوگوں کو غربت سے باہر لاسکے ہیں اور 30 فیصد کے لئے مواقع اور راہیں تلاش کی جارہی ہیں۔ 1947 سے لے کر اب تک چین نے برآمدات پر فوکس صعنت کاری کی ہے۔ چین کے پاس ورکرز (مزدور) کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ مشینی خود کاری کے بڑھتے ہوئے رجحان نے بڑے پیمانے پر دیہاتی بے روزگاری میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے وہاں ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ چند برسوں میں سیکٹروں ملین لوگ دیہاتوں سے شہروں کا رخ کرجائیں گے چین کی ترقی میں جو سب سے اہم کردار ادا کیا ہے وہ معاشی عمل میںعورت کی شمولیت نے کیا ہے۔ ’’ایک بچہ قانون‘‘ نے بھی صنعتی میدان میں نسوانی فورس کی دستیابی میںبہت اضافہ کیا ہے۔ چین میں مغربی سرمایہ دارانہ طرز کی فری مارکیٹ کا تصور تو ہے لیکن وہ مغربی طرز کی جمہوریت پر یقین نہیںرکھتے۔ بلکہ وہاں کا عام خیال ہے کہ ان کی ترقی میں آمرانہ ریاست اور مرکزی کنٹرول ان کی ترقی کا موجب ہے۔ چین میں اپنے GDPکا 2.2 فیصد تحقیق و ترقی کے پروگراموں پر خرچ کیا جاتا ہے جس میں 1948سے لیکر اب تک مسلسل پانچ سالہ منصوبے آتے رہتے ہیں اس وقت وہاں بارھواں پنچ سالہ منصوبہ چل رہا ہے۔ 1948 میں چین نے اپنے پرانے مارکیٹ کے سوشلسٹ کنٹرول کو بدلا اور دنیا کے ساتھ اپنی اقتصادی تنہائی کو توڑا اور بیرون ممالک سے آنے والی سرمایہ کاری کی خوب پذیرائی کی۔ 14اقتصادی زون اور کھلے تجارتی شہر بنائے وہاں کم ٹیکس یا ٹیکس فری رون کی سہولتیں فراہم کیں۔ کئی صنعتی زونز میںبجلی کی مفت فراہمی کی سہولت دی گئی تاکہ لوگ کھلے دل اور اعتماد کے ساتھ کاروبار پر توجہ دیں گو کہ چین میں 95 فیصد تعلیم یافتہ افرادی قوت ہونے کے باوجود غیر ہنر مند لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ پھر بھی چین پرہر سال 6لاکھ انجینئر پیدا کرتا ہے۔ اس وقت تو چین بڑے جارحانہ انداز میں اپنی معیشت کو گلوبلائز کر رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر برآمدات کی وجہ سے دنیا بھر کی مارکیٹ پر چینی مصنوعات کا غلبہ ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین دنیا بھر کے ترقی یافتہ اور نیم ترقی یافتہ ممالک میں اپنے تجارتی مراکز کے قیام کو تیزی سے بڑھاتا چلا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ چین کے بڑھتے ہوئے دولت کے ذخائر ہیں۔ جس سے چین امریکہ جیسی جارح معیشت کو بھی ایسے زیر اثر لانے کے چکر میں ہے لیکن فوجی طاقت سے نہیں بلکہ اقتصادی کے ذریعے سے۔ اس لحاظ سے چین کا بعض لوگوں کے خیال میں سامراجی کردار تو یہ اقتصادی سامراجیت ہے جس سے اتفاق کرنا اس لئے ضروری نہیں کیونکہ چین کی امداد جہاںجہاںبھی جارہی ہے وہاں کے انفراسٹرکچر سے شروع ہوتی ہے۔ چین کنزیومر اکانامی میں کم سرمایہ کاری کررہا ہے، یہ بھی گزشتہ سامراجی ممالک اور چین میں فرق ہے تاہم جس طرح کہ چینیوں کا خیال ہے کہ وہ ابھی خود کو آئندہ بیس سے تیس سال کے عرصے میں اپنی صحیح شکل میںترقی یافتہ دیکھیں گے تو ابھی چین کے بڑھتی ہوئی اقتصادی پیش قدمی کو ایک دم سامراجی کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا۔