آزادی مارچ:وہ لیفٹ میں کہ لیفٹسٹ اس میں؟

November 10, 2019

نصف صدی سے کوئی تہ تیغ ہو اور جسے نیست و نابود کرنے میں دو جید آمر حکمرانوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہو، جسے پیوندِ خاک کرنے کے لئے نت نئے نعرے ایجاد اور اس کے خلاف متعدد فتوے بھی دریافت کئے گئے ہوں، جس کی دو نسلوں کی قیادت کو لہو میں لت پت کرکے لحد میں اتارا گیا ہو، اس کے عزیز و اقارب اور ساتھیوں کو پسِ دیوارِ زنداں کی صعوبتوں سے بھی نوازا گیا ہو، یہی نہیں انہیں کبھی اسلام تو کبھی انصاف سے دور کھڑا کیا گیا ہو حتیٰ کہ ملک کیلئے سیکورٹی رسک بھی کہا گیا ہو، اگر تب بھی وہ پارٹی زندہ ہو پھر ان سب علالتوں اور عداوتوں کے بعد بھی اس کا وجود کہیں حکومت بن کر کھڑا ،کہیں اپوزیشن بن کر ڈٹا ہو، تو ایسی پارٹی کو قابلِ ستائش اور تاریخی نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟

یہ ہمارا المیہ نہیں، دراصل سرمایہ دار نے ہمیں پنپنے ہی نہیں دیا۔ ذہنی طور پر بونا بنائے رکھا یا وہ چالاک چمچے پیدا کئے کہ ایک پارٹی سے دوسری جانب گئے تو اپنے عمل کو مکہ کی طرف روانہ ثابت کیا یا کہا کہ پہلی لشکرِ یزید میں گزری اب حُر ہیں اور ہم مان گئے۔ بھٹو نے سیکولرازم کی بات ہی کی تو فرمان جاری ہو گیا کہ بھٹو تو لادینی سیاق و سباق کا حامل ہے پھر اس نے اسلامی سربراہی کانفرنس کرا دی، امتِ مسلمہ نے لیڈر بھی مان لیا مگر ہم نہ مانے۔ بھٹو نے استحکامِ پاکستان کی بنیاد رکھ دی، ڈاکٹر قدیر خان ہر روز گواہی دیتے ہیں، ہم نے گواہ سمیت سب بےتوقیری کی نذر کردیا اور بھٹو قبیلے کو سیکورٹی رسک گردان کر خوش ہوتے رہے۔ وہ عمائدین و قائدین و محققین کو ساتھ ملا کر آئین بناتا رہا ہم اسے آمر کا چوغہ پہنانے پر تلے رہے۔ وہ نیا نظام، نئی امید جدید پیغام متعارف کرا کے مغربی پاکستان میں دو تہائی اکثریت لے گیا ہم نے ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کا الزام اور خبر کشید کرتے رہے۔ اس نے ہاریوں میں ذاتی زمین تک تقسیم کردی مگر ہم اور ہمارا قبضہ گروپ، سیاستدان اور دانشور اسے قابض ثابت کرتے کرتے مر گیا مگر جب سینکڑوں خامیوں والے بھٹو کو بنظرِ عمیق دیکھیں تو وہ ہزار خوبیوں والا مجسمہ بن جاتا ہے۔ ایسا رائٹسٹ کہ وہ لیفٹ میں تو کبھی لیفٹسٹ اس میں!

ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم پڑوسیوں کو سیکولر دیکھنا چاہتے ہیں مگر اپنے آنگن میں تعصب کے پیپل کی آبیاری کریں گے۔ جمہوریت کی شفا بخش کونین کڑوی جان کر تھوک دیں گے لیکن آمریت کی آلودہ مٹھاس سے ملیریا اور ڈینگی پسند کرتے ہیں۔ ہمارا بنے گا کیا؟ دین دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں مسلک دیکھو، مسلک دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں مطلب کو دیکھو، مطلب دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں جان لیوا مطلبی کی پیروی کرو اور بلاشبہ ہمارا رب رب العالمین ہے اور ہمارے پیارے نبیﷺ رحمۃ للعالمین ہیں۔

کیا ابتدا میں اسلام بحث و تمحیص کا گلا گھونٹ کر پھیلا تھا؟ آج بھی بحث کے دریچے بند کرنا دانشمندی نہیں، ہر روز ایک شروعات ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام، سوشلزم اور سیکولرازم پر بحث اسلام کی عالمگیریت کو مزید نکھارتی و سنوارتی ہے اور انسان اسلامیات و انسانیات تلاش کرتا ہے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ اسلامیانِ سیاست میں لوگ ’’سیاست‘‘ سے زیادہ مخلص ہیں یا اسلام سے؟ اگر وہ انسانیت سے مخلص ہو جاتے تو اسلام ہی سے مخلص قرار پاتے!

تمہید نفسِ مضمون پر غالب آگئی، کہنا درحقیقت یہ تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کو آزادی مارچ کے اسٹیج پر تقریر کرتے دیکھ کر اُس کے نانا یاد آگئے اور مولانا فضل الرحمٰن، عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی، محمود اچکزئی وغیرہ کو دیکھ کر ایم آر ڈی کی طرف دھیان چلا گیا۔ اچھا لگتا ہے جب سیاست نظریاتی ہو واقعاتی نہیں۔ ایم آر ڈی میں کم و بیش سبھی پارٹیاں بائیں بازو کی تھیں سوائے جمعیت علمائے اسلام کے جس کی قیادت مولانا فضل الرحمٰن کررہے تھے۔ نصرت بھٹو، بی بی، غوث بخش بزنجو، رسول بخش پلیجو، جام ساقی، ولی خان، فاضل راہو وغیرہ نمایاں قیادت اس کا حصہ تھی۔ 1981میں وجود میں آنے والی ایم آر ڈی 1983میں اُس وقت زیادہ متحرک ہوئی جب آمر ضیاء الحق نے ایک فراڈ ریفرنڈم سے خود کو صدر بنوا لیا۔ گویا اُس دور میں سیاست اور سیاسی احتجاج کی روایت قائم کی جب آمر نے ملک میں سیاست کے خاتمے کی ٹھانی۔ تحریک گالی اور گولی کا شکار بھی ہوئی حالانکہ مولانا کے والد مفتی محمود نے ناقابلِ شکست بھٹو کو انتخابی شکست سے دوچار کیا تھا مگر چشمِ فلک گواہ ہے کہ بےنظیر بھٹو اور مولانا بحالی ٔ جمہوریت پر آمر کے خلاف ایک صفحہ پر آئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ تو آمر تھا اور مسئلہ ریفرنڈم تھا۔ اب بلاول اور مولانا ایک صفحہ پر کیوں؟ یہاں پورا جواب تو قلم بند نہیں کروں گا لیکن تاریخ، سماجیات، سیاسیات، فلسفہ، جرنلزم اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے نوجوان طلبہ کو کہوں گا ذرا جواب تلاش کریں اور ہمیں بھی بتائیں! المیہ آج بھی وہی لگتا ہے سرمایہ دار انکل سام نظریہ کی جگہ نظریۂ ضرورت اور نظریاتی کی جگہ ’’نشریاتی و اصطلاحاتی‘‘ کو بٹھا دیتا ہے۔ قول و فعل کے تضاد اور بین الاقوامی مالیاتی فساد میں کہیں آج پھر ایک تحریک کو جنم دینے کے درپے تو نہیں؟

بلاول صاحب! نصف صدی سے تہ تیغ فولادی کنبہ ملا ہے آپ کو، اب یہ پلیٹ فارم بھی پس ان سختیوں، بی بی کی طرح اپنے بابا کے پسِ دیوار زنداں تلخی، سوشلزم میں کیا اچھائی ہے اور کیا برائی؟ ان سب سے سیکھو! سو کوئی آزادی مارچ فقط اِنسانیت کیلئے بھی۔ یہ ادراک بھی کہ اسلامک سوشلزم ہے کیا؟ انسانیت کی اٹھان کیلئے اٹھئے نہ کہ حکومتی عنان کیلئے۔ پاکستان میں اب نظریاتی زمام کا تھامنا عنانِ اقتدار اور عنوانِ اقتدار سے زیادہ اہم ہے۔ کوئی تو ہو جو وحشتوں کا ساتھی ہو۔ منافقت نہیں درست نظریہ ہو تو لیفٹسٹ بھی آپ کا رائٹسٹ بھی!