مکافات ِ عمل؟

November 15, 2019

انسان مگر غور نہیں کرتا حالانکہ قرآن حکیم بار بار نصیحت کرتا ہے کہ غور کرو، سورج کے طلوع ہونے سے سورج کے غروب ہونے تک، زندگی کے معاملات اور نئے نئے واقعات پر غور کرو گے تو تم پر ہر واقعے کے باطن میں پوشیدہ سبق آشکارہ ہوگا۔

زندگی کے رازوں کو سمجھنا ہی غور و خوض کا انعام یا پھل ہے لیکن انسانوں کی بہت بڑی اکثریت وقت کی رو میں بہتی رہتی ہے، اپنے مفادات اور معمولات میں اس قدر مگن اور محو رہتی ہے کہ اسے غور کرنا نصیب ہی نہیں ہوتا، چنانچہ وہ واقعات و معاملات سے سبق سیکھنے، اپنا رویہ، سوچ اور انداز بدلنے میں ناکام رہتی ہے۔

غور کرنے کا مقصد ہے اپنے آپ میں تبدیلی لانا، قدرت کی منشا اور قدرت کی کاریگری سمجھنا اور اس کے مطابق اپنے اندازِ فکر کو ڈھالنا۔ سوچ بدلے گی تو انسان بھی بدلے گا کیونکہ سوچ انسان پر حکمرانی کرتی ہے اور ہمارے اعمال، انداز، سلوک اور حرکات سوچ کے تابع ہی ہوتے ہیں۔

میں نے اپنی زندگی میں غور کرنے والوں کو بدلتے دیکھا ہے، کسی کا انجام دیکھ کر لوگوں کو توبہ کرتے بلکہ سچی توبہ کرتے بھی دیکھا ہے، مجرموں اور گناہ کے عادی حضرت کو راہِ راست پہ بھی آتے دیکھا ہے، سنگدلوں کو نرم دل ہوتے بھی دیکھا ہے۔

شرط صرف اتنی سی ہے کہ انسان غور کی عادت ڈالے، زندگی کے بدلتے انداز، اپنے ارد گرد رونما ہوتے واقعات اور قدرت کے معاملات پر گہرا غور کرکے ان میں مضمر حکمت سمجھنے کی کوشش کرے، اپنی غلطیوں، ناکامیوں اور مایوسیوں کو حوصلہ شکنی یا حزن کا باعث بنانے کے بجائے ان کی وجوہات کا تجزیہ کرے اور ان سے سبق حاصل کرے۔

میرے مشاہدے کے مطابق زندگی اور دنیا مکافاتِ عمل کا وسیع سلسلہ ہے۔ کہاوت کے مطابق جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے، جو بیج بو گے ویسے پھل کھائو گے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے بہت سے برے اعمال کی سزا بلاشبہ اگلے جہان میں ملے گی لیکن میں نے اکثر لوگوں کو اپنے اعمال کی کچھ سزا اسی دنیا میں بھی بھگتتے دیکھا ہے۔

جن گناہوں کا تعلق براہِ راست اللہ سبحانہ‘ تعالیٰ سے ہے اور ان سے معاشرہ یا دوسرے انسان متاثر نہیں ہوتے ان کا معاملہ یوم ِ حساب خالقِ حقیقی کی عدالت میں پیش کیا جائے گا لیکن وہ اعمال جن کے اثرات دوسرے لوگوں پر مرتب ہوتے ہیں میں نے انہیں اکثر مکافاتِ عمل کی پکڑ میں آتے دیکھا ہے، اگر آپ حکمران ہیں، طاقتور ہیں، چھوٹی بڑی سطح پر بااختیار ہیں اور لوگوں سے مجرمانہ، ہتک آمیز، انتقامی اور نفرت آمیز سلوک کرتے ہیں، دوسروں کو دکھ اور تکلیف دیتے ہیں یا ذلیل و خوار کرتے ہیں تو یقین رکھیے کہ آپ اس کا انجام اسی دنیا میں خود دیکھیں اور بھگتیں گے۔

اگر آپ اپنے والدین اور خونی رشتوں کے حقوق پامال کرتے ہیں تو یقین رکھیے کہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا اور آپ کی اولاد اور رشتے دار آپ سے ویسا ہی سلوک کریں گے جس کی مثالیں آپ نے قائم کی تھیں، اگر آپ حکمران ہیں، بہت زیادہ بااختیار اور طاقتور ہیں تو جو سلوک آپ اپنے مخالفین سے کررہے ہیں ویسا ہی سلوک اقتدار کا سورج ڈھلتے ہی آپ سے کیا جائے گا، چاہے آپ کتنے ہی نمازی اور تسبیح کے دانے گننے والے ہوں۔

نیکی ذرہ بھر بھی ہو اس کا اجر اللہ پاک کا وعدہ ہے اور یہ اجر دونوں جہانوں میں ملتا ہے۔ اس جہاں میں زندگی کے معاملات میں برکت اور قلبی سکون کی صورت میں اور اگلے جہان میں بخشش کی صورت میں لیکن اگر عابد و زاہد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ سنگدل ہیں، تکبر اور غرور کے مریض ہیں، انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں، حریفوں سے سنگدلانہ سلوک روا رکھتے ہیں، رحم اور ترس سے خالی ہیں تو یقین رکھیے کہ آپ سے بھی ایسا ہی سلوک روا رکھا جائے گا جب آپ اقتدار و اختیار سے محروم کردئیے جائیں گے۔

مجھے ایک سخت گیر علاقائی حاکم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ذاتی زندگی میں انتہائی ایماندار، عابد و زاہد انسان تھا۔ تہجد کے علاوہ نماز پنجگانہ کی سختی سے پابندی کرتا تھا۔ بظاہر اس میں کوئی شرعی عیب نہیں تھا بس ایک کمزوری تھی وہ یہ کہ اپنے مخالفین یا حریفوں کو برداشت نہیں کرتا تھا۔ میں اس کے انداز دیکھ کر اکثر سوچتا تھا کہ نرم دلی اور سنگدلی کا یہ امتزاج عجیب و غریب ہے۔ یہ شخص ضرورت مند کی ضرورت مظلوم اور غریب کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار رہتا تھا لیکن ضرورت پڑنے پر اپنے مخالفین کو قتل کروانے سے بھی باز نہیں آتا تھا۔

اس کی شخصیت اصولی اور بیک وقت خوف کا مرقع مجموعہ تھی۔ میں اس کے متضاد انداز و اطوار دیکھ کر پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ غور و فکر میں بھی ڈوب جاتا تھا۔ پھر ایک صبح جب مجھے بتایا گیا کہ اس کے سگے بیٹے نے اس کی ہی رائفل سے اسے نیند میں ابدی نیند سلادیا ہے تو مجھے زندگی اور دنیا کا مکافاتِ عمل تھوڑا سا سمجھ میں آیا۔ معصوم، مجبور اور کمزور کا خون سر چڑھ کر بولتا ہے اور اکثر اوقات ہماری نگاہوں کے سامنے حساب برابر کرجاتا ہے۔

مکافاتِ عمل کیا ہے؟ جو کرو گے وہی بھرو گے، جیسا بیج بوئو گے ویسی فصل کاٹو گے، جیسا سلوک دوسروں سے کروگے، ویسا ہی سلوک آپ سے کیا جائے گا، دوسروں کے راستے میں کانٹے بکھیرو گے تو تمہیں بھی کانٹوں پہ چلنا پڑے گا۔ تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا اور قدرت حالات کا رخ بدل دے گی۔

مکافات عمل قدرت کا اٹل اصول ہے جس کے مظاہرے ہم ہر روز اپنے اردگرد چھوٹی یا بڑی سطح پر دیکھتے رہتے ہیں لیکن نہ ہم غور کرتے ہیں اور نہ ہی سبق سیکھنے کی توفیق ہوتی ہے۔ مکافاتِ عمل کی پکڑ سے بچنا چاہتے ہو تو ہر قدم اٹھانے سے پہلے، ہر فیصلہ کرنے سے پہلے لمحہ بھر کے لئے سوچو کہ کل تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوسکتا ہے، اس صورت میں تمہاری قلبی و ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)