سیاسی ٹمپریچر نیچے لانے کی ضرورت

November 19, 2019

ملک کے بہترین معالجین کی جانب سے شدید علالت کے باعث حالت تشویشناک قرار دیے جانے کے بعد سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بیرونِ ملک علاج کے مسئلے پر بعض قانونی نکات کی وجہ سے جو ڈیڈلاک پیدا ہو گیا تھا، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اسے بخیر و خوبی ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میں جو لفظی جنگ شروع ہوئی تھی، وہ توقعات کے برخلاف ختم ہونے کے بجائے مزید تیز ہو گئی ہے اور سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف کی صحت روز بروز گرتی جا رہی ہے، خود وزیراعظم عمران خان نے پوری طرح چھان بین کرانے کے بعد کہا تھا کہ میاں صاحب کی حالت واقعی خراب ہے اور انہیں علاج کے لئے بیرونِ ملک جانا چاہیے۔ وفاقی کابینہ نے اس کی اجازت بھی دے دی؛ تاہم واپسی کی ضمانت کے طور پر ان سے کہا گیا کہ وہ 7ارب روپے کا انڈیمنٹی بانڈ جمع کرائیں تاکہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے ان کا نام نکالا جا سکے۔ شریف فیملی نے یہ شرط ماننے سے انکار کر دیا اور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا۔ ہائیکورٹ نے قانون کے مطابق اپنا فیصلہ سنا دیا۔ دونوں فریقوں کے تیار کردہ حلف نامے فیصلے کا حصہ بنا لئے گئے اور انڈیمنٹی بانڈ کی جگہ انڈر ٹیکنگ لی گئی کہ میاں صاحب صحت یاب ہونے کے بعد واپس آجائیں گے۔ قانون دانوں کی نظر میں یہ بہت مناسب فیصلہ ہے جس میں کسی کی ہار ہوئی ہے نہ کسی کی جیت۔ مگر فریقین نے سیاسی مقاصد کے لئے مرضی کی تشریح شروع کر دی ہے جس کی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی۔ حکومت کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ حکومت کی فتح ہے، ہائیکورٹ نے میاں صاحب کی واپسی کے لئے جو شرائط عائد کی ہیں وہ حکومتی شرائط سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکومت عدالتی فیصلے کو اپنی جیت بھی قرار دیتی ہے اور اس کے بعض وزرا اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی قانونی ٹیم کو عدالتی فیصلے کا جائزہ لے کر کابینہ کے اجلاس میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے لیڈر حکومتی رہنمائوں کے دعوئوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلے کی من مانی تشریح کر رہے ہیں جو توہین عدالت ہے۔ حکومت کو 7ارب روپے وصول کرتے کرتے پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر اکتفا کرنا پڑا۔ اس طرح کی طعن و تشنیع کا ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھانے کے سوا کوئی مقصد نہیں۔ عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ نہایت متوازن اور قانون کے عین مطابق ہے۔ یہ کسی کی جیت ہے نہ ہار۔ جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ دونوں فریق اسے اپنی اپنی فتح قرار دے رہے ہیں گویا دونوں کی خواہش کے مطابق ہے۔ باقی تمام باتیں سیاسی ہیں جن کا معروضی حالات کے تحت ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران، مہنگائی اور بیروزگاری کا شکار ہے، مقبوضہ کشمیر کے حالات انتہائی خراب ہیں، خطے کا امن خطرے میں ہے، ملک میں الیکشن بھی نہیں ہو رہے کہ پوائنٹ اسکورنگ کی جائے۔ ایک اخلاقی مسئلہ پیدا ہو گیا تھا جو عدالت نے حل کر دیا، اس سے جڑے ہوئے کئی دوسرے مسائل بھی اپنے اپنے وقت پر قانون کے مطابق حل ہو جائیں گے۔ اس لئے تمام فریقوں، خصوصاً حکومت کو قومی یکجہتی اور اتحاد کی فضا ہموار کرنی چاہیے تاکہ ملک کے اصل مسائل پر توجہ دی جا سکے۔ اس وقت سیاسی ٹمپریچر نیچے لانے کی ضرورت ہے نہ کہ اسے بڑھا کر قوم میں انتشار پھیلانے کی۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش سے سیاسی کشیدگی میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ماضی میں اس طرزِ عمل سے ملک کو نقصان ہی پہنچا۔