لاہور کے طلبہ میں سرفروشی کی تمنا کیوں جاگی؟

November 19, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

فیض ادبی میلے کے موقع پر لاہور کے یونیورسٹی طلبہ کی اپنے حقوق کے لیے نعرے بازی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہو رہی ہے۔

اس ویڈیو میں عروج اورنگزیب نامی ایک طالبہ بڑے جوش و جذبے کے ساتھ ساتھی طلبہ کے ہمراہ ڈھول کی تھاپ پر معروف شاعر بِسمل عظیم آبادی کی نظم ’سرفروشی کی تمنا‘ گا رہی ہیں اور ساتھی بھرپور تالیاں بجا کر ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

اس نظم نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ StudentSolidarityMarch کے نام سےایک ٹرینڈ کا بھی آغاز ہوا ۔

فیض فیسٹول کے باہر طلبہ اور کارکنوں نے لوگوں کو 29 نومبر کے طلبہ مارچ میں شامل ہونے کی بھی دعوت دی۔

اس نظم کے بارے میں معروف ادیبہ نورالہدیٰ شاہ نے اپنا رد عمل دیتے ہوئے بتایا کہ کلام ’سرفروشی کی تمنا‘ سیاسی قیدیوں اور پھانسی چڑھنے والے انقلابیوں کا کلام ہے۔

طلبہ یکجہتی مارچ کیا ہے؟

پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو کی سرگرم کارکن عروج اورنگزیب کے مطابق آج کل تعلیمی اداروں میں بے چینی کی ایک لہر ہے اور طلبہ تحریک سے وابستہ تنظیمیں 29 نومبر کو ملک گیر احتجاج کے لیے اکھٹی ہو رہی ہیں۔ اس احتجاج کو ’طلبہ یکجہتی مارچ‘ کا نام دیا گیا ہے۔

طلبا یکجہتی مارچ کے مقاصد کیا ہیں؟

29 نومبر کو ہونے والےطلبا یکجہتی مارچ کے مطالبات میں یونین سازی، فیصلوں میں نمائندگی کا حق، کیمپس میں ہراس روکنے کے لیے کمیٹیوں کا قیام، چھوٹے علاقوں سے آنے والے طالبعلموں سے امتیازی سلوک کا خاتمہ، اور اس حلف نامے کا خاتمہ شامل ہے جو ہر یونیورسٹی میں داخلے کے وقت ایک طالبِ علم سے پُر کرایا جاتا ہے کہ وہ کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔

سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے کئی کارکنوں اور مبصرین نے ان کے جذباتی انداز کی داد دی اور کچھ نے انہیں ’برگرز ‘ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا۔

سرفروشی کی تمنا کرنے والی عروج اورنگزیب کون ہیں؟

عروج اورنگزیب پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹو، فیمینسٹ کلیکٹو اور حقوقِ خلق تحریک کا حصہ ہیں۔

ایک عام متوسط طبقے والے گھرانے سے اُن کا تعلق ہے۔ انہوں نے اپنی محنت کے بل بوتے پر ایک دو سکالر شپس بھی لی ہیں۔

فیض فیسٹول میں نعرے بازی سے متعلق عروج کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی 29 نومبر کو ہونے والے طلبا یکجہتی مارچ میں طالب علموں کو دعوت دینے کے لیے فیض فیسٹیول میں نعرے بازی کر رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارا اس میں کوئی اور مقصد نہیں ہے۔ لوگوں کو اتنا ابہام ہے کہ پتا نہیں کیا مقصد ہے یا این جی او نے پیسے دیے ہوئے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

عروج کا کہنا ہے کہ میں اور میرے ساتھی صرف عام سے انسان ہیں جو اپنی زندگیوں سے تنگ ہیں، خود کشیاں نہیں کرنا چاہتے بس نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔‘

عروج کہتی ہیں ہم غیر طبقاتی معاشرے اور غیر طبقاتی تعلیمی نظام کا قیام چاہتے ہیں۔ سب کے لیے تعلیم ایک جیسی ہوگی تو ہی ہم ایک جیسے بن سکتے ہیں۔

عروج کا طلبا یکجہتی مارچ کے بارے میں کہنا ہے کہ اس مظاہرے کے لیے ’سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی‘ کے تحت چاروں صوبوں سے نوجوان اپنے جمہوری حقوق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو رہے ہیں۔

اس تحریک کے بنیادی مطالبات میں پاکستان میں طلبہ یونینوں پر پابندی کا خاتمہ اور قومی سطح پر ان کے انتخابات ہیں۔ یہ تحریک تعلیمی اداروں کی نجکاری کے خلاف اور مفت تعلیم کے حق میں ہے۔


کچھ ناقدین کا کہنا تھا کہ طلبہ یکجہتی مارچ پاکستان کے تمام طالب علموں کی آواز نہیں ہے تو ایسی تمام باتوں کے جواب میں محبہ نامی ایک لڑکی کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں وہ تمام طالب علموں کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہیں۔

نعرے بازی کے علاوہ یہ نوجوان اسٹڈی سرکل بھی منعقد کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اپنے طلبہ یکجہتی مارچ کے پمفلٹ بھی بانٹ رہے ہیں۔