شیر اور چوہا

November 23, 2019

عبدالقدوس یحییٰ علیمی

ساتھیو! ”شیراورچوہا” یہ کہانی بہت پرانی اورزبان زد عام ہے ۔لیکن اس کہانی میں آج کے دور کوپیش نظر رکھتے ہوئے کچھ تبدیلی کی گئی ہے۔تبدیل شدہ کہانی کچھ یوں ہے ایک دفعہ ایک شہری چوہا گھومتے گھماتے جنگل کے اندر چلا گیا۔وہ خود کو کسی شیر سے کم نہیں سمجھتا تھا۔

بقول صوفی تبسم صاحب کے حرکتیں اس کی سب دلیروں کی کام کا شیر نام کا چوہا وہاں اس نے دیکھا کہ ایک شیر سورہا ہے۔ اس نے سوچا جنگل کا بادشاہ ہے اس کی سواری کرکے دیکھتا ہوں۔ ویسے بھی سیلفی کا زمانہ ہے ایک آدھ سیلفی بھی لے لوں گا۔ یہ سیلفی کا مرض کوئی نیا توہے نہیں جو میں ہی اس کا شکار ہوں بلکہ بہت قدیم ہے ۔ قدیم زمانے میں لوگ یہی کام آئینہ سے لیا کرتے تھے۔ جو آج لوگ اپنے موبائل کے کیمرہ سے لیتے ہیں۔مختلف انداز،ڈھب اورطورطریقوں سے آیئنے میں دیکھا کرتے تھے ۔

بہرکیف اس چوہے نے سوچا کہ کیاتصاویرآئیں گے۔کیسا اچھوتامنظر ہوگاچوہا شیر پرسوارہے۔ کیا ہی بہادر اورجرات مند چوہاہے۔وہ جھٹ پٹ اس پر سوارہو گیا اور ادھر ادھر مختلف زاویوں سے سیلفیاں لینے لگا۔ اس کی دھماچوکڑی سے شیر بادشاہ کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے جھٹ چوہے کو اپنے مضبوط پنچہ میں دبوچ لیا۔

چوہا فورا بولا بادشاہ سلامت آپ نے کہیں کہانی ضرور پڑھی ہوگی کہ ایک دفعہ ماضی میں بھی ایسے ہی ایک چوہا شیر کے اوپر اچھل کود کررہا تھا۔ شیر نے جب اسے دبوچ لیا تو اس نے فورا شیر سے عرض کی ،’’جنابِ علی! اگرچہ جسم میں چھوٹا اور ناتواں ہوں لیکن ایک مخلص دوست کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ جب آپ کو میری ضرورت پڑی میں آپ کے کام آؤں گا۔اس کے بعد کی کہانی تو آپ کو معلوم ہوگی کہ وہاں ایک شکاری آتا ہے جو شیر کو اپنے جال میں جکڑلیتا ہے، اس جال سے وہی چوہا شیر کو نجات دلاتا ہے۔بہرکیف آگے آپ کی مرضی ہے۔ شیر اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتاہے ۔اورہنس کرکہتا ہے کہ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ لیکن پھر بھی میں تمھیں چھوڑ رہاہوں۔

پھر تاریخ اپنے آپ کودہراتی ہے۔ وہ شیر بھی کسی شکاری کے جال میں پھنس جاتاہے۔شیر فوراً واٹس ایپ کال کرکے چوہے کوبلاتا ہے کہ دوست آج دوستی کا حق ادا کرو۔تمہیں خبر نہیں کہ میں مصیبت میں گرفتا ہوں۔ چوہا فوراً وہاں پہنچتا ہے اورا یک جانب سے جال کترنے لگتا ہے۔ لیکن یہ کیا اس سے جال کاٹا ہی نہیں جارہا تھا ۔جال کے تار باریک لیکن بہت مضبوط اور الجھانے والے تھے۔

ادھر ناقص غذائیں کھا کھا کر اس کے دانت قدرےخراب ہوچکے تھے جو پہلے سے بھی انتہائی مضبوط اوردیدہ زیب جال کو نہ کاٹ سکے ۔اب وہ جال اس کے اپنے دانتوں میں ایسے الجھ گیا کہ وہ خود کو بھی نہ چھڑا پارہاتھا۔اتنے میں شکاری آتاہے ۔ اور فوراً اسے پکڑ کر ماردیتا ہے ۔ کہ تو ہی وہ چوہا تھا، جس نے پہلے بھی ایک شیر کوشکاری کے جال سے چھڑایاتھا۔ چوہا مرتے مرتے یہ سوچ رہا تھا کہ یہ میرے دشمنوں کی سازش ہے انہوں نے واٹس ایپ بنادیا ۔اگر وہ یہ نہ بناتے تو آج میں یوں مارا نہ جاتا۔

حاصل کلام:

پیارے ساتھیو! بعض اوقات سیلفی کے شوقین خود کو انتہائی مصیبت بلکہ ہلاکت میں ڈال لیتے ہیں اس سے احتیاط بہتر ہے۔جیسا کہ چوہا اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہی نہیں تھا لہذا شیر کو کیا بچاتا اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھا۔اپنی طاقت و توانائی کے مطابق کام ہاتھ میں لینا چاہئے اس کے برعکس تباہی و بربادی ہے۔اچھل کود اورگھمنڈ سے مسائل حل نہیں ہوتے اس کے لئے بہتر تدبیر وحکمت عملی ضروری ہے۔