گالی اور دلیل کے درمیان سیاسی اسموگ

November 26, 2019

ہمارے سیاسی مکالمے میں گالی نے دخل پا لیا ہے۔ ایک صوبائی وزیر نے ٹیلی وژن پر کیمروں کی موجودگی میں میزبان کو ٹکسالی گالی دی۔ ایک مذہبی رہنما نے اپنی سیاسی مہم جوئی کو ایک ایسی گالی کا عنوان دیا کہ حضرت کی ذاتِ اقدس اور ایک غیر فصیح ترکیب یک جان دو قالب ہو گئے۔ ایک آن لائن عالم کی آف کیمرہ خوش بیانی اجتماعی حافظے میں محفوظ ہو گئی۔

ایک دفاعی تجزیہ کار نے خواتین شرکائے مجلس کے ساتھ بدزبانی میں نام پایا ہے۔ ایک مذہبی سیاسی رہنما نے شریکِ گفتگو خاتون کو ایسی عریاں دھمکی دی کہ اس پر فوجداری ہو سکتی تھی۔ حکمران جماعت کے ایک اتحادی رہنما کی بیہودہ گوئی آدھی قوم کے ٹیلی فون پر موجود ہے۔ متعدد سیاسی رہنما برہنہ گفتاری کی شہرت رکھتے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر سرکاری اہل کاروں سے لام کاف کی شہرت رکھتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے ایک اجلاس میں سیاسی حریف کے اہلِ خانہ کے بارے میں گل افشانی دیکھی جا سکتی ہے۔

ایک رائے یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنی شناخت کو مخفی رکھنا ممکن ہوتا ہے چنانچہ ہمارے اندر کی فحاشی منظر عام پر آ گئی ہے۔ قوم کی نوجوان اکثریت کا طرزِ کلام عام حالات میں ناقابلِ اشاعت قرار پاتا لیکن سوشل میڈیا نے لکھنے اور پڑھنے والے میں صحافتی نگرانی کا حجاب اٹھا دیا ہے۔ چنانچہ لکھنے والے کی ہر ناشائستہ رائے عریاں ملفوظات کی صورت براہ راست ہدف تک پہنچتی ہے۔

اگلے روز برادر محترم اظہار الحق شکوہ کناں تھے کہ ان کے کالم پر ناقابلِ برداشت تبصرے کئے جاتے ہیں۔ ان کی تالیف قلبی کی کمزور سی کوشش کر رہا تھا کہ ایک محترم خاتون استاد نے گلہ کیا کہ ان کی تحریر پر ایسے نازیبا تبصرے کئے جاتے ہیں کہ انہیں اپنے طالب علموں سے سخت شرمندگی ہوتی ہے۔ استاد مذکورہ ایسی شائستہ طبع واقع ہوئی ہیں کہ ان سے معذرت کرتے ہوئے بھی گہری خجالت کا احساس ہوا۔

مہذب معاشرے میں نجی مجلس کی لغت اور عوامی اظہار کی حدود طے ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں بد کلامی کا جو طوفان اٹھا ہے، اس کے لئے محض نئی ٹیکنالوجی کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ اقدار کا انحطاط ٹیکنالوجی کا محتاج نہیں۔ ہماری سیاست میں ناشائستگی کی تاریخ پرانی ہے۔

1946کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ کے پرجوش نوجوان کارکنوں نے بےلگام طرز کلام اپنایا۔ مجلس احرار کی شہرہ آفاق خطابت کی کشش میں ناشائستہ اشاروں کا بھی وافر حصہ تھا۔ ہماری پارلیمانی تاریخ کے آغاز ہی میں طرز گفتار کا معیار گر گیا تھا۔ فاطمہ جناح کے خلاف انتخابی مہم میں فوجی آمر اور اس کے حواریوں نے بدزبانی کا کوئی پردہ سلامت نہیں رہنے دیا۔ بھٹو صاحب پرستار ان کی شوخ بیانی کے مداح تھے لیکن یہ سیاسی مکالمے کا اعلیٰ معیار نہیں تھا۔

جنرل ضیاء الحق تو کابینہ کے اجلاس سے پریس کانفرنس تک ننگ گفتار تھے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو سے مریم نواز تک کون سی خاتون سیاست دان ہماری لفظی جارحیت سے محفوظ رہی۔ شیخ رشید صاحب کی بدزبانی سے نالاں حریف کچھ برس پہلے تک شیخ صاحب کی رنگین گفتاری سے لطف اٹھایا کرتے تھے۔ زبان و بیان کی گراوٹ کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو ہمارا تاریخی المیہ ہے اور دوسرے قوم کے اس نوجوان طبقے کی صورتحال توجہ کی محتاج ہے جس نے گزشتہ تیس برس میں جنم لیا ہے۔

گالی بنیادی انسانی احترام سے انکار کا اعلان ہے۔ گالی حریف کی تذلیل اور دھمکی کا ایسا امتزاج ہے جس سے معاشرے میں تشدد کا اصول جواز پاتا ہے۔ تہذیب دلیل کا تقاضا کرتی ہے لیکن جنگل میں تشدد کا اصول چلتا ہے۔ تشدد کی دھمکی بذات خود تشدد ہے۔

تشدد کی بدترین صورت آمریت کی حکمرانی ہے۔ آمر طاقت کے بل پر قوم کے حقوق، وسائل اور امکانات پر قبضہ کر کے پوری قوم کی توہین کرتا ہے۔ یہ توہین قوم کے رگ و پے میں اتر جاتی ہے۔

آمر کے مددگار اتحادی قوم کی توہین میں شریکِ جرم ہوتے ہیں۔ قوم دو دھڑوں میں بٹ جاتی ہے۔ طاقت کے بل پر قوم کی توہین کرنے والوں کی اقلیت اور توہین کا عذاب سہنے والی اکثریت۔ آمریت اجتماعی مکالمے کی دستوری اور تہذیبی حدود کو ملیامیٹ کر دیتی ہے۔

جمہوریت میں اختلافِ رائے سے باہمی احترام ختم نہیں ہوتا۔ آمریت کی قطعیت میں دلیل ختم ہو جاتی ہے۔ گالی باقی رہ جاتی ہے۔ ایک گالی طاقتور کی دھمکی ہوتی ہے اور ایک گالی مقہور عوام کا اظہارِ بےبسی۔ ہم نے آمریت بھی دیکھی اور آمرانہ طرزِ فکر کا طوق بھی پہنے رکھا۔ ہماری ثقافت میں گالی کے ظہور پر تعجب کیسا؟

دیکھیے، ہم نے اپنے نوجوانوں کی تعلیمی اور ذہنی تربیت میں کیا بارودی سرنگیں بچھائیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں مدت سے جغرافیہ نہیں پڑھایا جاتا۔ جغرافیہ محض نقشے کا بیان نہیں بلکہ حجم اور فاصلے کے ناقابلِ تردید حقائق سمجھاتا ہے۔ ہم نے مفروضہ نظریاتی تقاضوں کے تحت تاریخ کو مسخ کر ڈالا۔ تاریخ محض تقویم نہیں، واقعات کی ترتیب بذات خود تاریخ کی درست تفہیم کا حصہ ہے۔ تاریخ سے بےخبری تعصب کو جنم دیتی ہے۔

تعصب گالی کو مہمیز کرتا ہے۔ ہم نے فلسفے کو بےکار جان کر درسگاہ سے خارج کر دیا۔ اس سے نوجوان ذہن غیر منطقی ہو گئے۔ ہمارے اسکولوں میں ریاضی کبھی پڑھائی ہی نہیں گئی۔ ریاضی کے نام پر سوالات کی بےمعنی اور غیر تخلیقی مشق کروائی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہم اعداد و شمار کی درستی کو قابل توجہ نہیں سمجھتے۔ 300ارب ڈالر کی معیشت میں 200ارب ڈالر کی کرپشن پر یقین کر لیتے ہیں۔

ملین اور بلین کے فرق کو درخور اعتنا نہیں جانتے۔ ہم نے نوجوان نسل کو شعورِ تناسب سے محروم کر دیا۔ ایک تیسرا زاویہ یہ کہ ہم نے صنفی مساوات کو مغرب کی اختراع قرار دے کر مطعون کیا۔ صنفی امتیاز بنیادی طور پر عورت اور مرد کا عضویاتی فرق ہے۔ اس فرق کی بنا پر اونچ نیچ روا رکھنے والے انسانی جسم اور اس کے متعلقات کا احترام نہیں کر سکتے۔

ہم نے دلیل اور گالی کے درمیان غلط قومی ترجیحات کی ایسی دھند پیدا کر دی ہے جس سے دلیل کی آنکھ اندھی ہو جاتی ہے، گالی کی للکار مسلسل سنائی دیتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)