50 ہزار کا تکیہ

December 08, 2019

مرتب : محمد ہمایوں ظفر

سکون سے نیند پوری کرنے کے لیے ایک آرام دہ تکیے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس حوالے سے ایک مختصر سا واقعہ پیشِ خدمت ہے، جو میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے۔ 2005ء کی بات ہے، میری دو بیٹیوں کی اکٹھے شادی تھی، جس کی وجہ سے گھرمہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ برادری بڑی ہونے کی وجہ سے آس پاس کے عزیز و اقارب کے علاوہ دُور دراز سے بھی خاصی بڑی تعداد میں مہمان ہمارے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایسے میں اُن سب کے لیے خاصی تعداد میں بستروں، چارپائیوں کی ضرورت تھی، لہٰذا مَیں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ مہمانوں کے سونے کے لیے پڑوسیوں اور محلّے کے لوگوں سے تکیے، بستر اور چارپائیاں لے آئو، تاکہ مہمان آرام سے رات بسر کرسکیں۔ ہماری برادری میں اکثر خوشی و غم کے موقعے پر لوگ آپس میں اس طرح کا تعاون کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، لہٰذا شام تک بہت سے تکیے، بستر اور چارپائیاں جمع ہوگئیں۔

بیٹیوں کی شادی کی رسمیں عروج پر تھیں۔ رات گئے تک لڑکیاں بالیاں ڈھولک کی تھاپ پر شادی بیاہ کے گیت گاتی رہیں اور لڑکے بالے علیٰحدہ اپنے یار دوستوں کے ساتھ ہلّا گُلّا کرتے رہے۔رات تقریباً ایک بجے یہ سلسلہ تھما، تو کچھ مہمان چھت پر اور کچھ صحن میں بچھائے گئے بستروں پر آرام کے لیے چلے گئے۔ ہم سب بھی سونے کی تیاری کررہے تھے کہ اچانک میرے بیٹے کا دوست اپنی والدہ کے ساتھ بوکھلایا ہوا آیا اور کہا کہ میری والدہ کو آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ مجھے تعجب ہوا کہ رات کے اس پہر اچانک انہیں مجھ سے کیا کام آن پڑا، میں نے حیرت سے اس کی والدہ کی طرف دیکھا، تو انہوں نے بڑی بے چینی اور اضطراب سے کہا ’’بھائی صاحب! ہمارے گھر سے آپ کا بیٹا جو بستر لے کر آیا تھا، وہ کہاں ہے؟‘‘ مَیں نے جواب دیا ’’یہیں کہیں ہوگا، سارے مہمان سو چکے ہیں۔ آپ چاہیں، تو دیکھ لیں۔ ویسے خیریت تو ہے، آپ آدھی رات کو اپنا بستر لینے آگئیں۔‘‘ انہوں نے بڑی پریشانی سے بتایا ’’بھائی جان! دراصل میں نے جو بستر اپنے بیٹے کو دیا ہے۔ اس کے تکیے کے اندر 50ہزار روپے رکھے ہیں۔‘‘ یہ سنتے ہی مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ اُس زمانے میں یہ خاصی بڑی رقم تھی۔

خیر، تھوڑی تگ و دو کے بعد تکیہ مل گیا اور اس میں سے50ہزار کی رقم بھی برآمد ہوگئی، تو خاتون کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ مَیں نے آسمان کی طرف نظریں اٹھاکر اللہ کا لاکھ لاکھ شُکر ادا کیا کہ اگر خدانخواستہ یہ رقم نہ ملتی، تو میری کیا عزّت رہ جاتی۔ دراصل اُن خاتون نے اپنی بیٹیوں کی رخصتی کےلیے وہ رقم جمع کر رکھی تھی۔ بہ ظاہر یہ معمولی واقعہ ہے، مگر میرے لیے کبھی نہ بُھلانے والا واقعہ بن گیا۔ اب بھی شادی بیاہ کی تقریبات کے موقعے پر جب یہ واقعہ یاد آتا ہے، تو ایک جھرجھری سی آجاتی ہے۔ (سائیں تاج دین بٹ، عدیل ٹاؤن، بھائی والا، فیصل آباد)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کےقلم کار

٭عورتوں کی تعلیم (صدف آفاق) ٭(زندگی پر مثبت اثر ڈالنے والا واقعہ (محمد نوید شیخ، لاہور) مولوی صاحب اور جن کا بچّہ +انسان اور جنّات ایک ہی گھر میں (عظمیٰ ناز، کراچی) ٭ پاکستان کے لیے قربانیاں (عذرا محمود (شہید آفیسرز کالونی، راول پنڈی کینٹ) ٭یاد آتا ہے مقدر جب بھی (ممتاز سلطانہ، الرحیم شاپنگ سینٹر، پولیس لائن، حیدر آباد)٭ قسمت کی لکیریں (شاہدہ ناصر، کراچی) ٭اپنی کچھ اسٹوری (فیضان مہدی،کرن ٹاور، شادمان ٹائون ، کراچی