مسئلہ کشمیر پر مزید متحد و متحرک ہونے کی ضرورت

December 12, 2019

تحریر:حنیف راجہ۔۔گلاسگو
پاکستانی سکاٹ لینڈ کی سب سے بڑی نسلی اقلیت اور اسلام دوسرا مذہب ہے، ان لوگوں کا سکا ٹ لینڈ کی معیشت و معاشرت کی ترقی میں ایک اہم رول ہے، 12دسمبر کے الیکشن میں اگرچہ چار مسلم اور پاکستان نژاد افراد حصہ لے رہے ہیں۔ لیبر پارٹی کی طرف سے دو، لبرل ڈیموکریٹ کی طرف سے ایک جبکہ بریگزٹ پارٹی کی طرف سے بھی ایک امیدوار کھڑ ے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کا بھی کامیاب ہونا ایک بڑی خوش قسمتی کی بات ہو گی۔ سکاٹش نیشنل پارٹی جس کی جیت کا سب سے زیادہ امکان ہے اوردوسری بڑی پارٹی کنزرویٹو دونوں نے ہی کسی مسلم پاکستان نژاد کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ ایک معلق پار لیمنٹ کی صور ت میں سکاٹ لینڈ کے ممبران حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر سکتےہیں۔ ہمارا جینا مرنا اب اسی ملک کیلئے ہے اور میں اپنے تمام دوستوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اب اپنی پوری صلاحیتیں مقامی سیاست میں لگائیں اور پاکستانی سیاست کو پاکستان میں رہنے والے افراد پر چھوڑ دیں۔ دنیا کے اور کسی ملک کے رہنے والوں نے اپنی یہاں برانچیں نہیں بنائی ہیں سوائے پاکستانیوں کے جو ہم کو یہاں تقسیم کر رہی ہیں، اگر ہم مقامی سیاست میں بھرپور حصہ لیکر اقتدار کے ایوانوں میں آئیں تو آپ پاکستان کی زیادہ بہتر خدمت کر سکتے ہیں اس مقصد کیلئے آپ کسی بھی قومی سیاسی پارٹی میں شامل ہوں۔ جہاں تک مقامی مسائل کا تعلق ہے وہ یہاں رہنے والے ہر شہری کیلئے مشترکہ لیکن بطور ایک نسلی اقلیت اور مذہب کے ہمارا ایک اور رول بھی ہے جن میں اسلامو فوبیا، نسل پرستی، امیگریشن اور کشمیر اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن سے ہمارا شب وروز واستہ پڑتا ہے ہم کو اپنا ووٹ دینے سے پیشتر ان ایشوز پر بھی نظر ڈالنا ہو گی، انسانی حقوق ایک ایسا ایشو ہے جس پر دنیا بھر کی تمام انسان دوست قوتیں اور ممالک متحد ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس پر تمام کشمیریوں اور پاکستانیوں کو دنیا کے سامنے بھارت کا
اصلی چہرہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح صرف اپنا حق خودارادیت مانگنے کی پاداش میں اب تک لاکھوں افراد کو شہید اور ہزاروں کی تعداد میں خواتین کو بے آبرو کر چکا ہے۔ لیبر پارٹی نے اپنی حالیہ سالانہ کانفرنس میں کشمیر پر ایک ایمرجنسی موشن پاس کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیر کے متنازع علاقے میں ایک انسانی بحران ہے چنانچہ کشمیر کے عوام کو یہ حق دیا جائے کہ وہ حق خود ارادیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر سکیں۔ قرارداد میں مزید کہا گیا تھا کہ بین الاقوامی آزاد مبصرین کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کی دعوت دی جائے، اس قرارداد نے بھارتی حکومت کے ایوانوں میں تھرتھلی مچا دی اور برطانیہ میں مقیم بھارتی کمیونٹی کی سو سے زیادہ تنظیموں نے ایک باقاعدہ منظم پروگرام کے تحت لیبر کے چیئرمین جیرمی کوربن کو خطوط لکھے اور ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بھی ایک زبردست مہم چلائی جس میں برطانیہ میں مقیم بھارتی باشندوں سے کہا گیا تھا کہ وہ لیبر کی مخالفت اور کنزرویٹو پارٹی کو ووٹ دیں، لیبر جو کہ انسانی حقوق کی دعویدار پارٹی ہے افسوسناک بات ہے کہ وہ بھارت کے اس پروپیگنڈے اور مہم کے دبائو میں آگئی اور ا س کے چیئرمین ایان لیوری نے اپنے مؤقف کو تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ ہے جس پر لیبر مداخلت نہیں کرے گی۔ پاکستانیوں اور کشمیریوں کیلئے سوچنے کی بات ہے کہ اگر بھارت کشمیر میں تاریخ کے بدترین مظالم ڈھانے کے باوجود برطانیہ میں مقیم اپنی کمیونٹی کے ذریعے ایک غلط بات کو منوانے کیلئے سب کچھ کر سکتا ہے تو کیا کشمیری کمیونٹی حق پر ہونے کے باوجود وہ کچھ کر رہی ہے جو کہ اس کو کرنا چاہئے۔ ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے حلقے کے امیدواروں سے ملکر وعدہ لیں کہ کامیابی کی صورت میں وہ مسئلہ کشمیر کو پارلیمینٹ میں اٹھائیں گے اور اس کو حل کرانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔