جتھے بندی کا رجحان

December 13, 2019

جنگل میں آباد جانوروں کے طرززندگی پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین نے بہت پہلے یہ راز پا لیا تھا کہ جانور تنہائی پسند نہیں ہوتے بلکہ گروہ کی شکل میں زندگی گزارتے ہیں۔

وائلڈ لائف پر تحقیق کرنے والوں نے خاصی جستجو کے بعد ان وجوہات اور اسباب کی فہرست مرتب کی جو جانوروں کو جتھے اور غول کی شکل میں رہنے پر مائل کرتی ہیں۔

جانوروں کے جمع ہونے کی بنیادی وجہ تو دشمن سے تحفظ ہے۔اکیلے جانور کو بہ آسانی شکار کیا جا سکتا ہے مگر کسی جتھے یا جھنڈ کو نشانہ بنانا مشکل ہوتا ہے۔

ایک ساتھ گھومتے پھرتے وقت سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ بے نام اور بے چہرہ ہو جاتے ہیں۔ تاک میں بیٹھا کوئی شکاری کسی ایک جانور کو ہدف بنا کر حملہ نہیں کر سکتا اور کنفیوز ہو جاتا ہے۔

ایک جانور یا ایک پرندہ کتنا ہی محتاط کیوں نہ ہو، اس کی نظر دھوکا کھا سکتی ہے مگر جب کئی آنکھیں خطرے کو بھانپ سکتی ہوں اور اردگرد کے ماحول پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوں تو چکما دینا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

گروہ بندی کی دوسری وجہ اپنے مسکن، اپنی کچھار، اپنے نیستاں اور اپنے بھٹ کا تحفظ ہے۔ جانور جس علاقے میں رہتے ہیں وہاں کوئی خارجی داخل ہو کر ان کے من پسند ماحول کو پراگندہ کرنے کا باعث نہ بنے، وہ جیسے چاہیں کھائیں، پئیں آنند رہیں، کوئی روک ٹوک کرنے والا نہ ہو۔

گھڑیال اور نہنگ دریا میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے، ہاتھی اپنے علاقے میں کسی کو نہیں گھسنے دیتے، یہاں تک کہ بندر اپنے مخصوص علاقے میں کسی کو آنے کی اجازت نہیں دیتے، سانپ اپنے بل میں گھسنے کی کوشش کرنے والوں پر حملہ کر دیتے ہیں۔

جنگل کا کوئی بھی جانور کسی ضابطے اور اصول کا پابند نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی قسم کی حدود وقیود کو تسلیم کرتا ہے اس لئے وہ اپنے مسکن کو ’’نو گو ایریاز‘‘ میں بدل دیتے ہیں تاکہ وہ یہاں جیسے چاہیں اپنی تند امنگوں کو پالیں پوسیں اور جب دل چاہے کسی کا ماس نوچیں۔ ماہرین کے مطابق جانوروں کے جھنڈ تشکیل پانے کی تیسری بڑی وجہ خوراک کا حصول ہے۔

آب و دانہ کی فکر تو ہر جاندار کو ہوتی ہے مگر اکیلے رہنے والے جانوروں کے لئے پیٹ کی آگ بجھانے کا اہتمام کرنا مشکل ہو جاتا ہے اس لئے وہ ایکا کر لیتے ہیں اور مل کر بندوبست کرتے ہیں۔

جانوروں کے کئی گروہ ایسے بھی ہیں جن میں بعض جانور کھوجی کا کردار ادا کرتے ہیں اور خوراک ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جیسے ہی انہیں کہیں وافر مقدار میں خوراک کے آثار نظر آتے ہیں، وہ اپنے گروہ کو آگاہ کرتے ہیں اور پھر سب مل کر دھاوا بول دیتے ہیں۔

جانوروں کی گروہ بندی کا چوتھا سبب شکار کا حصول ہے۔ جنگل میں ہر جانور بیک وقت شکار بھی ہوتا ہے اور شکاری بھی۔ زندگی کا دار و مدار محض اس بات پر ہوتا ہے کہ کسے کب شکار کرنے کا موقع پہلے میسر آتا ہے۔

بڑے اور طاقتور جانور تو اکیلے شکار کرنے کی ہمت کر لیتے ہیں مگر چھوٹے اور کمزور جانوروں کے لئے تنہا شکار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جانور جتھے کی شکل میں جمع ہوکر شکار کرتے ہیں۔ جتھہ بندی کی وجہ سے وہ اپنے سے بڑے اور طاقتور جانوروں کو بھی زیر کر لیتے ہیں۔

آپ نے جنگلی حیات کا رہن سہن دکھانے والے چینلز پر یہ مناظر دیکھے ہوں گے کہ جنگلی کتے مل کر کسی شیر یا چیتے کو نوچ ڈالتے ہیں۔ عام حالات میں تو کوئی ہاتھی یا شیر جیسے جانور کے قریب پھٹکنے کی غلطی نہیں کرتا لیکن جب چھوٹے جانور جھنڈ کی شکل میں ہوتے ہیں تو بہت بیباک ہو جاتے ہیں اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔

گروہ کی شکل میں بڑے جانوروں کو بھنبھوڑنے کا یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ آپ نظروں میں نہیں آتے۔ اگر دو چار چھوٹے جانور مل کر کسی چیتے کو مار ڈالیں تو ان کی نشاندہی ہو سکتی ہے اور چیتے کا خاندان بدلہ لے سکتا ہے لیکن حملہ آوروں کی تعداد سینکڑوں میں ہو تو قاتل کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔

گویا گروہ بندی یا جتھے بندی کا سب سے بڑا فائدہ وہ کنفیوژن ہے جس کی وجہ سے آپ پہچانے نہیں جاتے اور کسی قسم کی کارروائی سے بچ جاتے ہیں۔

انسانوں نے بھی جنگل کے جانوروں سے وحشت سیکھی اور جتھے بندی کے بے پناہ فوائد اُٹھانے کیلئے گینگ بنانا شروع کر دیے۔ اگر کوئی ایک انسان یا دو تین لوگ کسی کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں تو ان کی نشاندہی ہو جاتی ہے اور مقامی قوانین کے مطابق ان لوگوں کے خلاف شکایت کی جا سکتی ہے۔

قانون خواہ کتنا ہی ضعیف اور ناتواں کیوں نہ ہو، اس کی پکڑ میں آنے کا خوف رہتا ہے اور یہی خوف دراصل انسانی معاشرے میں امن و امان کا ضامن ہے مگر اس خوف کو گروہ بندی، گینگ اور جتھے کی شکل میں زائل کیا جا سکتا ہے۔

اگر کہیں چند سو یا چند ہزار لوگ جمع ہوتے ہیں اور پھر وہ بینک اور دکانیں لوٹنا شروع کر دیتے ہیں، نجی و سرکاری املاک کو نذرِ آتش کر دیتے ہیں، جسے جی چاہے مارنے پیٹنے لگتے ہیں اور قانون اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں تو اس جتھے کا کوئی چہرہ یا شناخت نہیں ہوتی، ان کے خلاف کارروائی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

اگر خانہ پری کی غرض سے مقدمہ درج بھی کرلیا جائے تو بات آگے نہیں بڑھ سکتی کیوں کہ اتنے بڑے اجتماع کے خلاف ثبوت حاصل کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مردان یونیورسٹی میں مشال خان کو قتل کرنے کے مقدمے میں ملوث سب لوگ چھوٹ گئے، سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو دردناک موت دینے والے سفاک قاتلوں کو سزائے موت تو ہوئی مگر سپریم کورٹ نے اس سزا کو 10سال قید میں تبدیل کر دیا۔

اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو سفید لباس پہن لیں اگر پولیس والے ہیں تو وردی پہن لیں اور پھر جو چاہیں کریں آپ کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اگر مذہبی ہیں تو جبہ و دستار پہن کر کسی پر بھی کفر کا فتویٰ لگا دیں۔

لوگ جمع ہو جائیں تو کسی کو بھی تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیں، کوئی بازپرس نہیں ہوگی کیونکہ آپ بے نام اور بے چہرہ ہیں، آپ کی کوئی شناخت اور پہچان نہیں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)