انسانی ترقی، پاکستان مزید پیچھے، ایک درجہ گر کر 189 ملکوں میں سے 152 پر آگیا، بھارت اور بنگلہ دیش سے13فیصد نیچے، تعلیم اور صحت کے اشاریوں میں بھی کمی

December 13, 2019

اسلام آباد ( مہتاب حیدر) ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس ( ایچ ڈی آئی) کی نئی درجہ بندی میں پاکستان مزید پیچھے چلا گیا ہے ,189ممالک میں اس کا نمبر 152ہے، تشویش ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی درجہ بندی جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک میں کم تر ہے۔

پاکستان کی بھارت اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک سے ایچ ڈی آئی 13فیصد اوسطا کم ہے۔ پاکستان نے 2000 سے 2015 کے عرصے میں بہتری دکھائی تھی تا ہم اس کے بعد یہ عمل سست روی کا شکار ہو گیا، یونائیٹڈ نیشنز ڈیویلپمنٹ پروگرام ( یو این ڈی پی) نے ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ( ایچ ڈی آر) گزشتہ روز لانچ کی، یو این ڈی پی کے پالیسی انیلسٹ عمر ملک نے ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2019 کے اہم نکات پیش کیے۔

2000 سے 2018 تک کی ایچ ڈی آئی کا تجزیہ کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی ایچ ڈی آئی ویلیو 2017 میں 0.558 کے مقابلے میں2018 میں 0.560 تھی، یوں پاکستان 189ممالک کی درجہ بندی میں 152ویں نمبر پر پہنچ گیا، اور اسکی میڈیم ہیومن ڈیویلپمنٹ کیٹگری بھی گر گئی ہے۔

2017 میں پاکستان کی پوزیشن 151 تھی۔ 2000 سے 2015 کے عرصے میں ایچ ڈی آئی میں 25فیصد کی بہتری آئی، سالانہ اوسط پیداوار 1.2فیصد رہی، اس کے بعد یہ معاملہ سست روی کا شکار ہو گیا، بہتری تعلیم اور آمدن کے اشاریوں میں رہی۔

بہتری کے باوجود بھی پاکستان کی معیشت جنوبی ایشیائی ممالک سے کم رہی، یہ جنوبی ایشیاء کی اوسط ایچ ڈی آئی سے تیرہ فیصد اور میڈیم ہیومن ڈویلپمنٹ کی ایچ ڈی آئی سے بارہ فیصد کم رہی، اس کی کار کردگی نوزائدہ بچوں کی جانیں بچانے، سکولنگ اور فی کس جی این آئی میں بھی کم تر ہے۔

پاکستان میں تعلیم اورصحت کےاشاریوں میں بھی کمی آئی، ان شعبوں میں عدم مساوات جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے، اور 2018 میں آئی ایچ ڈی آئی کی شرح 0.386 رہی، اس ضمن میں پاکستان 31 فیصد کمی کا شکار رہا۔

جنڈر ڈیویلپمنٹ انڈیکس( جی ڈی آئی) کے حوالے سے ایچ ڈی آر 2019 میں بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان کی 2018 میں زنانہ ایچ ڈی آئی ویلیو 0.464 رہی، جب کہ مردانہ ایچ ڈی آئی ویلیو 0.622 رہی، جس کے نتیجے میں جی ڈی او آئی ویلیو0.747رہی۔

یہ ایچ ڈی آئی کی کامیابیوں میں کمی اظہار ہے، اور صنفی مساوات سے مکمل انحراف ہے، پاکستان نے جنوبی ایشیا ئی ممالک اور اور دیگر میڈیم ایچ ڈی آئی ممالک سے کم تر اوسط ویلیو کی کار کردگی کا مظاہرہ کیا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ڈاکٹر سبینہ الکائر کا کہنا ہے ملٹی ڈائی مینشل پاورٹی انڈیکس ( ایم پی آئی)کے مطابق جنوبی ایشیاء میں 541 ملین غریب ہیں۔

ان میں 75ملین پاکستان میں ہیں جن میں 40 ملین بچے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے ایم پی آئی انڈیکس سے محرومی کے تحت پاکستان میں ہر تین میں سے ایک بچہ غریب ہے۔

انہوں نے عدم مساوات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیائی ریجن میں مالدیپ میں ایم پی آئی 0.8 فیصد، جب کی افغانستان میں یہ 56.9 ہے۔ ایم پی آئی کی تعریف کے مطابق گیارہ فیصد جنوبی ایشیائی بچیاں بہت غریب ہیں اور وہ سکول سے باہر ہیں ، لیکن پاکستانی بچیوں کے حوالے سے یہ تعداد 27 فیصد ہے۔

جنوبی ایشیاء میں چار سال تک کے بچوں میں گھروں کے اندر غذائیت کی عدم مساوات کی شرح 23فیصد ہے لیکن پاکستان میں یہ 33 فیصد ہے۔

انہوں نے مزید کہا پاکستان کا نیشنل ایم پی آئی اسلام آباد میں تین فیصد اور بلوچستان کے ضلع قلعہ عبد اللّہ میں 97 فیصد تک ہے، معروف ماہر اقتصادیات اور مسلم لیگ ن کی رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے ایچ ڈی آر کے پاکستان کے بارے میں تمام نتائج درست ہیں ، ہمارے ملک میں عدم مساوات بہت زیادہ ہے، پاکستان بنگلہ دیش سے بھی پیچھے رہ گیا ہے جس کی درجہ بندی 135ہے اور ہم 152نمبر پر کھڑے ہیں۔

پاکستان میں اوسط عمر67جب کہ بنگلہ دیش میں72سال ہے، بنگلہ دیش ایک وقت میں پاکستان کا حصہ تھا اب ہم اس سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں، ہمیں اس کا تجزیہ کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ 75 ملین افراد کا غریب ہونا مایوس کن ہے ان کی ٹارگٹڈ سکیموں سے دیکھ بال نہیں ہو سکتی، اس کا حل اعلیٰ اور اشتمالی جی ڈی پی گروتھ ہے۔