کہاوت کہانیاں...!!

December 14, 2019

محمد بلال

’’ناؤ میں خاک اڑانا‘‘

’’ناؤ میں خاک اڑانا‘‘ناؤ کا مطلب ہے کشتی۔ اب آپ کہیں گے کہ کشتی میں خاک یعنی مٹی بھلا کوئی کیسے اڑا سکتا ہے۔ یہ تو بے تکی بات ہوئی، تو جناب اس کہاوت کا مطلب ہے بے تکا بہانہ بنانا۔ یہ کہاوت ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب کوئی شخص ایک نا حق بات کہے اور پھر اسے صحیح ثابت کرنے کے لئے الٹے سیدھے بہانے تراشے یا کوئی کسی پر ظلم کرنے کے لئے بے تکی دلیل دے۔

اس کا قصہ بھی سنئیے۔ ایک کشتی میں شیر اور بکری اکٹھے دریا پار جارہے تھے۔ بکری کو دیکھ کر شیر کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے سوچا کہ کسی بہانے سے اسے ہڑپ کرنا چاہیے۔ آخر کوئی بہانہ نہ ملا تو بولا، “اے نالائق! ناؤ میں خاک کیوں اڑا رہی ہو؟ اگر میری آنکھ میں خاک چلی گئی تو؟”بکری نے جواب دیا، “ناؤ میں بھلا خاک کہاں؟”اس پر شیر بولا، “بد تمیز، زبان چلاتی ہے۔” اور اسے کھا گیا

’’ٹیڑھی کھیر ہونا‘‘

ٹیڑھی کھیر ہونا یعنی مشکل کام ہے۔ یہ کہاوت ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی ٹیڑھا اور بہت مشکل کام سر پر آن پڑے۔ اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک شخص نے کھیر پکائی۔ سوچا اللہ کے نام پر کسی فقیر کو بھی تھوڑی سی کھیر دینی چاہیے۔ اسے جو پہلا فقیر ملا وہ اتفاق سے نابینا تھا اور اس فقیر نے کبھی کھیر نہیں کھائی تھی۔ جب اس شخص نے فقیر سے پوچھا، “کھیر کھاؤ گے؟”

تو فقیر نے سوال کیا، “کھیر کیسی ہوتی ہے؟”

اس شخص نے جواب دیا، “سفید ہوتی ہے۔”

اندھے نے سفید رنگ بھلا کہاں دیکھا تھا۔ پوچھنے لگا، “سفید رنگ کیسا ہوتا ہے؟”

اس شخص نے کہا، “بگلے جیسا۔”

فقیر نے پوچھا، “بگلا کیسا ہوتا ہے؟”

اس پر اس شخص نے ہاتھ اٹھایا اور انگلیوں اور ہتھیلی کو ٹیڑھا کر کے بگلے کی گردن کی طرح بنایا اور بولا، “بگلا ایسا ہوتا ہے۔”

نابینا فقیر نے اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ کو ٹٹولا اور کہنے لگا، “نہ بابا یہ توبہت ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہ گلے میں اٹک جائے گی۔ میں یہ کھیر نہیں کھا سکتا۔

اندھیر نگری چوپٹ راج

’’ اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا‘‘

بھاجی کا مطلب ہے پکی ہوئی سبزی اور ترکاری اور کھاجا ایک قسم کی مٹھائی کا نام ہے۔ اس کہاوت کا مطلب ہے کہ اگر حاکم بیوقوف یا نالائق ہو تو ملک میں لوٹ مار اور بے انصافی عام ہو جاتی ہے۔

یہ کہاوت عموماً ایسے وقت بولی جاتی ہے جب کسی جگہ، ملک، شہر یا ادارے کے بارے میں یہ بتانا ہو کہ وہاں اچھے برے کی تمیز نہیں، بد نظمی ہے، لوٹ مار مچی ہوئی ہے اور کسی کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔

اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک گرو اور اس کا چیلا ایک ایسے شہر سے گزررہے تھے، جہاں ہر چیز ٹکے سیر بکتی تھی، چاہے سبزی ہو یا مٹھائی۔ سستی سے سستی اور مہنگی سے مہنگی چیز کے دام ایک ہی تھے، یعنی ایک ٹکے کا ایک سیر۔اتنا سستا شہر دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا۔ گرو سے کہنے لگا، ’’یہیں رہ جاتے ہیں۔ مزے مزے کی چیزیں خوب پیٹ بھر کر کھایا کریں گے۔‘‘

گرو نے چیلے کو سمجھایا کہ ایسی جگہ رہنا ٹھیک نہیں ،جہاں اچھے اور برے میں کوئی فرق نہیں، لیکن چیلا نہ مانا۔ گرو اسے وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ ادھر چیلا مٹھائیاں اور روغنی کھانے کھا کھا کر خوب موٹا ہوگیا۔ ایک دن شہر میں ایک شخص کو کسی نے جان سے مار دیا۔ سپاہیوں نے قاتل کو بہت تلاش کیا لیکن اسے نہ پکڑسکے۔

مرنے والے کے رشتے داروں نے راجا سے فریاد کی کہ ہمیں جان کا بدلہ جان سے دلایا جائے۔ راجا کو پتا چلا کہ قاتل کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اندھیر نگری تو تھی ہی اور سارا کام کاج تو ویسے بھی چوپٹ تھا۔ اس بیوقوف راجا نے حکم دیا، ’’کوئی بات نہیں، جان کا بدلہ جان سے لیا جائے گا۔ شہر میں جو آدمی سب سے موٹا ہو اسے پکڑ کر پھانسی دے دو۔ انصاف ہو جائے گا۔‘‘

ٹکے سیر مٹھائی کھا کر موٹا ہونے والا چیلا ہی شہر میں سب سے موٹا نکلا۔ سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور چلے پھانسی دینے۔ اتفاق سے گرو جی دوبارہ وہاں سے گزرے۔ چیلے نے انہیں دیکھ کر دہائی دی۔گرو نے سارا معاملہ سن کر کہا، ’’میں تم سے پہلے ہی کہتا تھا یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ یہاں برے اور بھلے میں کوئی تمیز نہیں۔ خیر اب کوئی تدبیر کرتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر گرو نے سپاہیوں سے کہا، “اسے چھوڑ دو، مجھے پھانسی دے دو، تمھاری مہربانی ہوگی۔‘‘

سپاہیوں نے حیران ہو کر پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

گرو نے جواب دیا، ’’اس لیے کہ یہ وقت موت کے لئے بہت اچھا ہے۔ اس وقت جو پھانسی لگ کر مرے گا وہ سیدھا جنّت میں جائے گا۔‘‘

یہ سن کر سارے سپاہی پھانسی پر چڑھنے کو تیار ہو گئے۔کوتوال نے یہ سنا تو کہا، ’’سب کو چھوڑو پہلے مجھے پھانسی دو۔‘‘

اس طرح پورے شہر میں “مجھے پھانسی دو، مجھے پھانسی دو” کا شور مچ گیا۔راجا کو پتا چلا تو اس نے کہا، ’’جنّت میں جانے کا پہلا حق میرا ہے۔ پہلے مجھے پھانسی دو۔‘‘پس راجا کو پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح چیلے کی جان بچی اور گرو جی اسے لے کر بھاگے۔