وزیراعظم کا آہنی عزم

March 30, 2016

وزیراعظم نوازشریف نے اتوار کی شام لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہونے والے سانحہ کے پس منظر میں دہشت گردی اور لاقانونیت کے خلاف اپنی حکومت کی ترجیحات، ریاست کی پالیسی اور عوامی عزم کا ایک بار پھر دوٹوک انداز میں اعادہ کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ شہیدوں کے ایک ایک قطرہ خون کا حساب چکایا جائے گا اور دہشت گرد، ان کے سرپرست اور مددگار جہاں کہیں چھپے بیٹھے ہیں، قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکیں گے۔ پیر کی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یاد دلایا کہ گزشتہ تین برس کے دوران حکومت کے پختہ عزم، مسلح افواج، پولیس اور قومی سلامتی کے اداروں کی جدوجہد اور عوام کی تائید و حمایت سے دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آئی ہے اور یہ میرا ، میری حکومت اور بیس کروڑ عوام کا عزم ہے کہ انسانیت کے دشمنوں کو دوبارہ سر نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔ انہوں نے کسی خاص واقعے کا ذکر کئے بغیر کہا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر لاقانونیت، گھیرائو جلائو، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، بدامنی پھیلانا اور عام انسانو ں کے لئے مشکلات پیدا کرنا کسی طور قابل برداشت نہیں۔ ہمارا دین، امن، سلامتی، محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اشتعال پھیلانے، نفرتوں کی آگ بھڑکانے، فرقہ واریت کو ہوا دینے اور عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنے والوں کو ضرور قانون و انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اس سلسلے میں روا رکھی جانے والی نرمی کو ریاست کی کمزوری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے بسی نہ سمجھا جائے۔ کوئی فتنہ، کوئی بدامنی اور کوئی سازش ہمیں اپنی طے کردہ منزل کی طرف پیش قدمی سے نہیں روک سکتی۔ وزیراعظم نے اپنی نشری تقریر میں جن نکات کا ذکر کیا ہے، بلاخوف تردید اسے سواداعظم کی ترجمانی قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے درست کہا کہ ہم اس رسول ﷺ کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے اور اسلام میں ایک شخص کے قتل ناحق کو بھی پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ دہشت گردی فی الوقت ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکی ہے۔ اسلامی ملکوں کے علاوہ یورپ اور امریکہ بھی اس کی زد میں ہیں لیکن جو ملک اس سے سب زیادہ متاثر ہوا، جس نے سب سے زیادہ جانی اور مالی قربانیاں دیں اور جو اس وقت دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے وہ پاکستان ہے۔ پچھلے چند ماہ میں دہشت گردی کے پے درپے کئی واقعات رونما ہوئے لاہور سے پہلے دہشت گرد پشاور، شبقدر، کوئٹہ، مردان اور بعض دوسرے مقامات کو نشانہ بنا چکے اور درجنوں بے گناہ انسانوں کی جانیں لے چکے ہیں ۔ دہشت گردی اور عدم تحفظ کی فضا میں ملک کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور سرمایہ کاری کا عمل سست پڑ گیا۔ ایسے میں فرقہ واریت یا دوسرے حوالوں سے لاقانونیت اور بدامنی پھیلانے کی کوششیں کسی طور ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ اس ضمن میں وزیراعظم کا یہ عزم مستحسن ہے کہ منفی قوتوں کو ناکام بنا کر ملک کو امن ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنایا جائے گا۔ اس مقصد کیلئے دوسرے اقدامات کے علاوہ تفریح گاہوں اور پبلک مقادات پر سیکورٹی موثر بنانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے کیونکہ یہی وہ مقامات ہیں جو دہشت گردوں کے لئےآسان ہدف ہو سکتے ہیں۔ قومی ایکشن پلان میں اندرون ملک دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جن نکات پر زور دیا گیا تھا، ان مقامات کی سیکورٹی ان میں شامل تھی مگر کئی دوسرے پہلوئوں کی طرح اس پہلو پر بھی مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ ایکشن پلان کی خامیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ وزیراعظم کے حکم پر جنوبی پنجاب سندھ اور بلوچستان سے ملحقہ اضلاع میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف جو آپریشن شروع کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ہی ممکنہ طور پر آسان ہدف بننے والے اداروں، تنصیبات اور مقامات کی حفاظت پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی۔