کیا الیکشن کمیشن ڈیڈ لائن ختم کرسکتا ہے

March 03, 2013

پیپلز پارٹی کے وزیر قانون نے کہا ہے کہ ہم بھی جعلی ڈگریوں والوں کے خلاف ہیںان کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہئے ۔کیا کہنے ۔کس دھڑلے سے لوگ جھوٹ بولتے ہیں آدمی پریشان ہوجاتا ہے۔یہ ابھی کل کی بات ہے جب جمشید دستی کی ڈگری جعلی ثابت ہوئی تھی او ر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس کے خلاف جعل سازی کا مقدمہ درج کرانے کی بجائے اسے مظفر گڑھ سے پھر ایم این اے کا ٹکٹ دے دیا تھا بلکہ اس وقت کے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم نے ان کی انتخابی مہم میں شرکت کی تھی اور دوسری بار ایم این اے بنوا کر یہ پیغام دیاتھاکہ ہم سب ایک جیسے ہیں سب جعل ساز ہیں سب دھوکے باز ہیں ۔ اور پھر اس وقت وہی کوشش جاری ہے ۔الیکشن کمیشن نے ڈگریوں کے تصدیق کےلئے دی جانے والی ڈیڈ لائن ختم کردی ہے ۔جعل سازوں کی خیر، جعلی ڈگری والے پاگل نہیں ہیں کہ جعلی ڈگریوں کی تصدیق کراتے پھریں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ وہ خود الیکشن نہیں لڑیں گے بیٹے یا بھائی کو کھڑا کر دیں گے۔اور جب الیکشن لڑنے کےلئے ڈگری کی شرط ختم ہوچکی ہے تو خود کو ڈگری والا کہنے کی کسی کو ضرورت ہی نہیں۔ موجودہ اسمبلی کے ارکان کی ڈگریاں چیک کرنے کا حکم سپریم کورٹ نے دیا تھا۔ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد تواس حکم پرعمل درآمد کرنے کی ویسے ہی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ڈگری موجودہ اسمبلی کے ممبرکی چیک ہونی تھی اورابھی چند دنوں کے بعدجب وہ شخص ممبر ہی نہیں رہے گا توقانونی طور پراس کی ڈگری چیک نہیں کی جاسکے گی۔کچھ لوگوں کے خیال میں ڈیڈ لائن ختم کر کے الیکشن کمیشن نے صرف اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا ہے بلکہ توہین عدالت کا بھی مرتکب ہوا ہے کہ ایک اسمبلی جس کی مدت ختم ہونے والی ہے ۔اس کے ارکان اسمبلی کو کہہ دیا ہے کہ سپریم کورٹ نے جو آڈر دیا تھا اس پر عمل درآمدکرو یانہ کرو آپ کی مرضی ہے ۔الیکشن کمیشن نے ایک اور اعلان بھی کیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں امیدوار کو اپنے کاغذا ت کے ساتھ اصل ڈگری بھی پیش کرنا ہوگی ۔اصل ڈگری مانگنے کا صاف مفہوم یہی ہے کہ اسی ڈگری کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ یہ اصلی ہے یا نہیں ۔یعنی متعلقہ یونیورسٹی سے اس کا ریکارڈ چیک نہیں کرایا جائے گا۔الیکشن کمیشن کا اگر امیدوار کا تعلیمی ریکارڈ چیک کرنے کا ارادہ ہوتا تو اسے اصلی ڈگری مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔
جعلی ڈگریوں والے کیس میں یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آئی کہ الیکشن کمیشن نے تمام ارکان اسمبلی کے کوائف متعلقہ یونیورسٹیوں کو تصدیق کےلئے کیوں نہیں بھیجے آسان سی بات تھی یونیورسٹی ریکارڈ چیک کر کے بتا دیتی کہ کون سے ایم این ایز کی ڈگریاں جعلی ہیں۔اور اب ڈیڈلائن ختم کرنے سے صاف ظاہر ہورہاہے کہ الیکشن کمیشن کے متعلق ڈاکٹر طاہر القادری نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ درست تھے اور اب تو مجھے اس دوست کی بات بھی صحیح لگنے لگی ہے جس نے اپورزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان کے ڈگری چیک کرانے سے انکار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ چور کی داڑھی میں تنکے والا محاورہ پرانا ہوچکا ہے۔اب تو لوگ کہتے ہیں جیسے ایم این اے کے بریف کیس میں جعلی ڈگری۔سوچتا ہوں کہ اس ملک میں یہ سوال کس سے پوچھوں کہ عام آدمی کوتو جعل سازی پرنہ صرف سزا ہوتی ہے بلکہ بیچارے کوکم ازکم14دن تک ریمانڈ میں رکھا جاتا ہے تھانے میںتفتیش کی جاتی ہے کہ اس جعل سازی میں اس کے ساتھ اور کون کون ملوث ہے یہ جعلی ڈگری کون سے پرنٹنگ پریس پر پرنٹ ہوئی ہے۔پھر اس پریس کے مالک بھی گرفتار کیا جاتا ہے۔جس شخص نے کمپیوٹر پر اس کی ڈیزائننگ کی ہوتی ہے وہ شریک جرم کے طور پر دھر لیا جاتا ہے۔مگر جب کوئی ایم این اے جعلی سازی کرتا ہے تو پتہ نہیںعدل کو کیوں سانپ سونگھ جاتی ہے۔قانون کے محافظ آنکھیں کیوں بند کر لیتے ہیں ۔
الیکشن کمیشن کے حوالے سے میری چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک درخواست ہے۔اور میرے دوستوں کے بقول اس درخواست کی قبولیت کے امکانات بہت کم ہیں مگر پھر بھی آواز دے کر دیکھ لیتے ہیں وگرنہ منیر نیازی کا یہ شعر تو گنگنا ہی لیںگے:
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
درخواست ذرا سی طویل ہے ۔ پہلی عرض اتنی ہے کہ عدالت عالیہ فوری طور پر الیکشن کمیشن کو ہدایت دے کہ وہ تمام ارکان اسمبلی کو پابند کرے کہ اسمبلیاں ختم سے ہونے پہلے پہلے تمام اراکین اسمبلی اپنی ڈگریاں چیک کرائیں اور جو ارکان اس حکم نامہ پر عمل نہ کریں انہیں قانون کے تحت باقاعدہ سزا سنائی جائے ۔دوسری عرض یہ ہے کہ انتخابات سے پہلے تمام امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کا سلسلہ کمپیوٹرائز کرایاجائے جہاں ان تمام لوگوں کا مکمل ڈیٹا موجود ہو جنہوں ٹیکس نہیں دیا بجلی پانی اور گیس کے بل جمع نہیں کرائے ۔ جو بنک ڈیفالٹر ہیں یا جنہوں نے قرضے معاف کرائے ہیںجن پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں تاکہ کمپیوٹر اس شخص کے کاغذاتِ نامزدگی درج ہی نہ کرے جو آئین کے مطابق امیدوار بننے کا اہل نہیں ہے۔تیسری عرض یہ ہے کہ وہ سیاسی پارٹیاں جنہوں نے پارٹی کے اندر انتخابات نہیں کرائے یا جعل سازی کے ساتھ اپنے پارٹی انتخابات کا ریکارڈ الیکشن کمیشن کو بھجوادیا ہے ان پارٹیوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جائے اور جن لوگوں نے جعل سازی سے پارٹی الیکشن کے کاغذات تیار کئے ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے ۔چوتھی عرض یہ ہے کہ جن پارٹی عہدہ داروں نےگذشتہ الیکشنوں میں مختلف امیدواروں کے ساتھ سودا بازی کی ہے اور انہیں رشوت دے کر اپنے امیدوار کے حق میں دست بردار کرایا ہے اور جن کے ثبوت میڈیا پر دکھائے جا چکے ہیں ان کے خلاف فوری طور پر کاروائی کی جائے جس طرح ن لیگ نے لاہور کی ایک سیٹ پر مولانا الوری کے ساتھ سودا بازی کی تھی ۔ ان کے درمیان ہونے والا معاہدے اور چیک کی فوٹو کاپی ڈاکٹر شیر افگن نے قومی اسمبلی میں جمع کرائی تھی جب معراج خالد سپیکر ہوا کرتے تھے ۔قومی اسمبلی میں اس کیس کا مکمل ریکارڈ موجود ہے ۔پانچویں عرض یہ ہے کہ پندرہ دنوں میں سکروٹنی کا عمل مکمل نہیں ہوسکتا ۔اس کا دورانیہ کم از کم دوماہ کیا جائے ۔عظیم تر قومی مفاد کی خاطراگر انتخابات ایک ماہ لیٹ کر دئیے جاتے ہیں تو اس سے جمہوریت کو نقصان نہیں ہوگا بلکہ حقیقی جمہوریت آئے گی۔