اسٹیٹس کو توڑنے کی جنگ کیسے جیتی جائے؟

January 01, 2020

قدرے بہتر آمریت کے مقابل پاکستان میں بدتر جمہوریت کے دو ادوار کے دوران ’’آئین نو‘‘ میں دو خاندانوں کی اقتدار پر اجارہ داری کی بنیاد پر قائم ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی دہائی دیتے ہوئے عوام الناس کو سمجھانے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی کہ اسلامی جمہوریہ پر آئین کی روح سے متصادم یہ کیفیت (اسٹیٹس کو) عملاً نظامِ بد ہے۔

عوام کو بنیادی انسانی حقوق مہیا کرنے کے مقابل ایک ایسا عوام دشمن نظام جو ذاتی، خاندانی، گروہی اور جماعتی مفادات کے ہرحال میں حصول کیلئے دھڑلے سے عوام کے استحصال اور جمہوریت کی تذلیل کا برسوں سے مرتکب ہو رہا ہے، جیسا کہ نون لیگ اور پی پی کی اقتدار کی ہر باری، خواہ یہ وفاقی حکومت تھی یا صوبائی، اپنے پہلے دور سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔

الیکشن 18حصول اقتدار کے بے اصولے سے سیاسی کھیل میں اتنی تبدیلی ضرور برپا کر گیا کہ دونوں روایتی پارلیمانی پارٹیوں کی حتمی ناکامی پر اقتدار مقتدر غیر سیاسی ادارے کے پاس جانے یا اس کے غالب اشتراک سے کوئی نیم جمہوری حکومت تشکیل ہونے کے بجائے بالآخر ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو 22سال سے چیلنج کرتے اور اس کی بیخ کنی پر مسلسل آمادہ تبدیلی کے علمبردار کرکٹ ہیرو عمران خان کی جماعت تحریک انصاف بالآخر اقتدار میں آ ہی گئی۔

اگرچہ اپوزیشن انہیں سلیکٹیڈ قرار دیتی ہے لیکن یہ تو روایتی سا طنز ہے جو پاکستان میں الیکشن میں کامیاب ہونے والی ہر حکومت پر ہی کیا جاتا ہے،ماسوائے الیکشن 77 کے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ حددرجہ باجواز ہے کہ جو سیاسی قیادت اور جماعت دو روایتی پارلیمانی پارٹیوں نون لیگ اور پی پی کے مقابل اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی وہ تبدیلی برپا کرنے،

یا کم از کم پہلے ایک سوا سال میں اس کی جانب ابتدائی اقدامات بھی کرنے میں کیوں ناکام ہوگئی جو اس نے خستہ حال قومی معیشت کو سنبھالا دینے کےلئے تو کیے بھی لیکن ایک تو وہ خاصے متنازع اور وزیر اعظم عمران خان اور پارٹی لیڈروں کے انتخابی مہم میں کئے گئے دعوئوں کے برعکس ہیں۔

الٹا ابتدائی اور بھاری بھر جو قدم اٹھائے جا رہے ہیں اس کے لئے عوام پر ہی سارا بوجھ پڑ رہا ہے، جس سے ان کی فنانشل ہارڈ شپ میں اضافہ ہی ہوتا گیا خصوصاً مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کو بدحال کیا ہوا ہے پھر ڈھیلے مقامی حکومتوں کے نظام کی موجودگی میں بھی تھانہ کچہری نظام جوں کا توں ہے۔

اس مایوس کن پس منظر میں فقط نیک نیت اور دیانت دار وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اس عزم کو پھر دہرایا ہے کہ (ان کے ارادے کے مطابق ) اصلاحاتی نظام میں رکاوٹ بننے والے ’’اسٹیٹس کو ‘‘کی مزاحمت کے باوجود مختلف شعبوں میں اصلاحات کا عمل جاری رہے گا۔

گزشتہ دنوں پشاور کے گورنر ہائوس میں دو مختلف تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ تو تسلیم کیا کہ 2019ء مشکلات کا سال تھا ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ آنے والا سال معاشی ا ستحکام اور ترقی کے لئے بہتر ہو گا۔ دیکھتے ہیں نیا سال عوام کے لئے کیسا ہو گا؟

’’لٹیرے حکمرانوں کی خزانے کی 10سالہ لوٹ مار کے بعد ملک کو اجاڑنے ‘‘ کے پی ٹی آئی کے بیانیے کو اپنے پہلے سال کی ناقص کارکردگی اور عوام کی مایوسی کے مقابل ڈھال کے طور پر پیش تو صحیح ہی کیا گیا

اب وزیراعظم نے تاجروں، صنعت کاروں اور پہلے دو کرپٹ ادوار کی بڑی بینی فشری افسر شاہی کی خاموش مزاحمت سے شکست کھانے اور انہیں ’’مراعات‘‘ کا خاموشی سے پیکیج دینے کےساتھ میڈیا سے بھی شکایت کی ہے اور سب کو ایک ہی فقرے میں مافیا قرار دے کر ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے تحفظ کی جنگ میں اپنی مایوسی اور بے بسی کا اظہار کیا ہے،

لیکن انہیں ان سوالات کا جواب بہرحال دینا ہے کہ کیا جب وہ برسراقتدار آئے تو ان کے پاس اصلاحات کا کوئی پیکیج تھا؟ نہیں تھا تو پہلے ہی سال میں تنقید و نشاندہی کے بعد اب تک تیار ہو سکا؟

احتساب کے عمل میں نیب کے مسائل اور آزادی تو اپنی جگہ آپ نے اس کی سکت بڑھانے کے لئے کیا کیا؟ آپ کی ٹیم پر شدید تنقید ہوئی اور درست ہوئی اس کے جمود کو توڑنے، اپنے اسٹیٹس کو کی مزاحمت سے نمٹنے کے لئے خود آپ نے کیا کیا؟ یہ تو خوش قسمتی ہے کہ گمبھیر کشمیر اور بھارت کی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی حکومتی پالیسیوں پر حکومت،

فوج اور پوری قوم سب ہی ایک پیج پر ہیں لیکن اس کا کوئی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے؟ کہاں ہے وزارتِ اطلاعات و نشریات، آپ کی حکومت کی مضحکہ خیز ترجمانوں کی ٹیم اور وزارت خارجہ کو خدمات دینے والے پریس اتاشیوں کی کارکردگی؟ جو مین اسٹریم میڈیا اس وقت بڑا ابلاغی مورچہ بننا تھا، ایک تو اس صورتحال میں اس کا پروفیشنلزم مایوس کن ہے لیکن حکومت بھی اس سے گیپس بڑھانے پر تلی ہوئی ہے۔ تمام تر توقعات یہ ہیں کہ ’’ملک میں جو تبدیلی برپا ہو گئی ہے‘‘ بس میڈیا اس کے گن گائے، نہیں تو وہ مافیا ہے۔

حضور! ملک جتنا بھی اجڑ گیا اور بالکل اجاڑ دیا گیا اس پر اکثریت اور اجاڑنے والے سنجیدہ حامی بھی اختلاف نہیں کرتے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں بحرانی کیفیت میں بھی جو پوٹینشل موجود ہے، آپ اس سے کام لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ آپ کے الیکٹ ایبلز، آپ کے ترجمان، آپ کے گورننس کے مضحکہ خیز ماڈل، آپ کے میرٹ کے پیمانے، آپ کی پالیسی سازی (اگر ہے تو) اس قابل ہے کہ کوئی اصلاحات کا پیکیج عوام اور میڈیا کے سامنے لائے اور اپنی ٹیم کی کارکردگی کو ماپنے کا کوئی پیمانہ؟

اور ان کا پرفارمنس آڈٹ؟ اپوزیشن عوام دوست قانون سازی میں تعاون کرتی ہے یا نہیں، آپ تو ایسے بل عوام کے سامنے لائیں اور ان کے عدم تعاون کو بے نقاب کریں۔ پنجاب میں تو آپ کی واضح اکثریت اور من پسند وزارتِ اعلیٰ ہے، اسے تو ماڈل صوبہ بنا کر دکھائیں۔

متذکرہ تمام سوالات کے درست جواب اور ان کے مطابق حکومتی اقدامات ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی مزاحمت کو ختم کر دیں گے وگرنہ ’’تبدیلی‘‘ آ کر بھی نظامِ بد ہی اپنی نئی شکل میں مسلط رہے گا۔