2019، پاکستانی میڈیا کوپابندیوں، سختیوں، قتل و سنسرشپ کا سامنا

January 20, 2020

کراچی ( اسٹاف رپورٹر) سال 2019، پاکستانی میڈیا کو سخت پابندیوں، سختیوں، قتل اور سنسرشپ کے مسائل کا سامنا رہاتحریری مواد رکھنے کے الزام میں ایک صحافی کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی، صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ملک بھر میں سات صحافیوں کو قتل اور 15 سے زائد کو زخمی کیا گیا، انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت 35 مقدمات میں 60سے زائد صحافیوں کو نامزد کیا گیاکونسل آف پاکستان نیوزپیپرایڈیٹرزنے پاکستان میڈیافریڈم رپورٹ 2019جاری کر دی،صحافتی آزادی سے متعلق یہ رپورٹ اتوار کو جاری کی گئی جس میں ملک بھر میں صحافت اور صحافیوں کو درپیش صورت حال اور مشکلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کونسل آف پاکستان نیوزپیپرایڈیٹرز (سی پی این ای ) کی جانب سے جاری کردہ پاکستان میڈیافریڈم رپورٹ 2019ءکے مطابق پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو سخت خطرات کا سامنا ہے۔ گزشتہ برسوں کی طرح سال 2019 میں بھی پاکستانی میڈیا کے لیے سخت پابندیوں، سختیوں، قتل اور سنسرشپ جیسے مسائل کی شدت رہی۔صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ملک بھر میں سات صحافیوں کو قتل اور 15 سے زائد کو زخمی کر دیا گیا۔ کسی قاتل یا ملزم کو سزا نہیں دی گئی۔ انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت 35 مقدمات میں 60سے زائد صحافیوں کو نامزد کیا گیا۔تحریری مواد رکھنے کے الزام میں ایک صحافی کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔بظاہر’’ نامعلوم عناصر‘‘ اور غیر ریاستی عوامل کی جانب سے بھی صحافیوں، میڈیا کے کارکنوں اور اداروں کو دھمکیوںاور حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ روزنامہ ڈان کے دفاتر کا گھیرائو کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ آئین کی شق 19 اور انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنایا گیا ہے تاہم سال 2019 کے دوران پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس رہی کیونکہ میڈیا کو سخت پابندیوں، سختیوں، قتل اور سنسرشپ جیسے مسائل کا سامنا رہا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معلومات تک رسائی کا قانون بنانے میں خیبرپختونخوا پہلے نمبر پر رہا جس کے بعد پنجاب اور سندھ میں یہ قانون بنا لیکن بلوچستان میں معلومات تک عام شہریوں کی رسائی ایک خواب ہی رہی ۔ سی پی این ای کے مطابق پریونشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کو متعارف کراتے وقت یہ بتایا گیا تھا کہ یہ قانون سائبر کرائمز، خواتین کو آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے استعمال ہو گا اور اسے صحافیوں و میڈیا کے خلاف ہرگز استعمال نہیں کیا جائے گا لیکن ان دعوئوں کے برخلاف اسے میڈیا کی آزادی اور آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے لیے کسی نہ کسی بہانے سے سال 2019 میں بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے میڈیا کے گرد شکنجے کو مزید سخت کرنے کے لیے خصوصی میڈیا ٹریبونلز بنانے کا بھی اعلان کیا تھاتاہم سی پی این ای اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی شدید مخالفت کی وجہ سے حکومت نے اس تجویز کو واپس لینے کافیصلہ کیا۔ سی پی این ای کی رپورٹ میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاگیا کہ خراب ترین کارکردگی والے 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 142 واں ہے جو پاکستان میں جمہوریت اور آزادی اظہار کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں صحافتی خدمات کی ادائیگی کے دوران سات صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں عروج اقبال، مرزا وسیم بیگ، محمد بلال خان، علی شیر راجپر اور ملک امان
اللہ خان شامل تھے۔ اسی طرح موصولہ اطلاعات کے مطابق مختلف حملوں میں 17سے زائد صحافی زخمی بھی ہوئے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ بظاہر ’’نامعلوم افراد‘‘ بھی میڈیا کی آزادی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بنے رہے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں، مذہبی گروہوں اور ریاستی حکام کی جانب سے مبینہ طور پرصحافیوں کے خلاف حملے کیے جاتے رہے۔ خبروں اور صحافتی مواد کی وجہ سے روزنامہ ڈان کے دفاتر کا گھیرائو کیا گیا اور اس کے چیف ایڈیٹر ظفر عباس و انتظامیہ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی گئی۔ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے کردار کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیمرا نے نا صرف ٹیلی ویژن چینلز کو بے جا اور بے تحاشا نوٹسز بھیجے بلکہ کچھ اینکرزپر ٹی وی پروگرامز میں اپنی رائے کے اظہار اورٹی وی ٹاک شوز میں شرکت پر بھی پابندی لگا دی۔پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کا معاملہ ٹاک شوز میں زیربحث نہ لانے کا حکم دیاگیاجبکہ نیوز چینلز کواحکامات دیئے گئے کہ پی ایم ایل ن کی رہنما مریم نواز کی پریس کانفرنس کو براہ راست کوریج نہ دی جائے، خلاف ورزی کے نام پر 21 ٹی وی چینلز کو نوٹس بھی جاری کیے گئے۔جیوٹی وی میں میزبان حامد میر کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے انٹرویو پر مبنی براہ راست نشریات کوشروع ہونے کے فوری بعد ہی بند کرادیا گیا۔ آزادی مارچ پر مولانا فضل الرحمن کی کوریج کرنے پر جیو نیوز، 24 نیوز، ابتک، کیپٹل اور ڈان نیوزکی نشریات کو بند (آف ائیر) کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کی شکایت پر چینل 24 نیوز کو نوٹس جاری کیا گیا اوراس پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔ سی پی این ای کی رپورٹ میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار کے حوالے سے بتایا گیا کہ کم ازکم 60 صحافیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی اور دیگر ایسے قوانین کے تحت 35 مقدمات درج کیے گئے ، ایسے جعلی مقدمات بنا کر قانون کا مذاق اڑایا گیا۔ ان میں سے 50 صحافیوں کا تعلق صرف صوبہ سندھ سے تھا۔ گزشتہ سال ہی کراچی پریس کلب کے رکن صحافی نصر اللہ چوہدری کوتحریری مواد رکھنے کے الزام پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 5 سال قید اور جرمانے کی سزا سنا دی۔ رپورٹ میں سی پی این ای کے صدر عارف نظامی نے سفارشات پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی اقدامات کیے جائیں اور اس کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی پراسکیوٹرز بھی تعینات کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ہائوسز اور صحافتی تنظیمیں اپنا ہمہ گیراور متفقہ ضابطہ اخلاق بنا کر اس پر عمل کریں۔ میڈیا ہائوسز کی سطح پر سیفٹی پالیسی، سیفٹی پروٹوکول اور سالانہ سیفٹی آڈٹ کے رجحان کو بھی فروغ دیا جائے تاکہ صحافیوں، دیگر عملے اورمیڈیا اداروں کو درپیش ممکنہ خطرات کا پہلے سے اندازہ لگا کر روک تھام کی جا سکے۔پریونشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ کی شق 11 ) منافرت سے متعلق) ، شق 20 (ہتک عزت سے متعلق) اور شق 37 (پی ٹی اے کو ویب سائٹ بند کرنے کے اختیار سے متعلق) کو ختم اور شق 09 اور 10 میں موجود ابہام دورکیا جائے تاکہ اس قانون کی آڑ میں صحافیوں کو ان کے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی پر نشانہ نہ بنایا جا سکے۔ عارف نظامی نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت درج مقدمات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔