تحریکِ آزادیٔ صحافت میں فاضل راہو کا کردار

January 22, 2020

پاکستان کی تاریخ میں آزادیٔ صحافت کی اکثر تحریکیں آمر ضیاء الحق کے دور میں چلیں‘ اِن تحریکوں میں صحافیوں نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں پیش کیں۔ ایک تحریک کے دوران جو لاہور سے چلی تھی گرفتاری دینے والے صحافیوں کو فوجی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا جہاں سے ان صحافیوں کو ایک‘ ایک سال کی بامشقت قید کی سزائیں سنائی جاتی تھیں۔ یہ سزائیں کاٹنے والے صحافیوں میں اس وقت کے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر نثار عثمانی بھی شامل تھے، انہی فوجی عدالتوں سے چار صحافیوں کو کوڑوں کی سزائیں بھی سنائی گئیں مگر تحریک پھر بھی چلتی رہی۔ میں یہاں ایک ایسی تحریک کا ذکر کروں گا جو کراچی سے چلی تھی۔ اس سے پہلے جنرل ضیاء کے دور میں غالباً آزادیٔ صحافت کی تین تحریکیں چل چکی تھیں۔ صحافیوں کی قیادت نے حکومتی اقدامات سے تنگ آکر یہ چوتھی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت صحافیوں کی قیادت منہاج محمد خان برنا اور نثار عثمانی کے ہاتھ میں تھی۔ برنا صاحب آل پاکستان نیوز پیپر ایمپلائز کنفیڈریشن کے چیئرمین تھے اور نثار عثمانی صاحب پی ایف یو جے کے صدر تھے چونکہ یہ تحریک کراچی سے چلائی گئی لہٰذا برنا صاحب اور صحافیوں کی دیگر قیادت کے اجلاس میں محسوس کیا گیا کہ یہ تحریک خاصی لمبی چل سکتی ہے اور چونکہ ملک بھر میں صحافیوں کی تعداد محدود ہے لہٰذا یہ ضروری سمجھا گیا کہ دیگر جمہوریت پسند اور عوام دوست تنظیموں سے رابطہ کرکے ان سے بھی شامل ہونے کی درخواست کی جائے لہٰذا برنا صاحب کی صدارت میں لیفٹ کی مزدور یونینوں اور سیاسی تنظیموں کے رہنمائوں کا ایک اجلاس ہوا۔ ان تنظیموں نے آزادی صحافت کی تحریک کی حمایت کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کا بھی یقین دلایا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جس دن صحافی کراچی میں گرفتاریاں پیش کریں اسی دن ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مزدور‘ طلبا اور کسان بھی گرفتاریاں پیش کرینگے۔ اس اجلاس میں دیگر لیفٹ کی جماعتوں کے علاوہ سندھ سے تعلق رکھنے والی لیفٹ کی پارٹی ’’عوامی تحریک کی طرف سے خاص طور پر فاضل راہو نے شرکت کی۔ فاضل راہو نے اعلان کیا کہ صحافیوں کے ساتھ عوامی تحریک سے تعلق رکھنے والے کسان بھی گرفتاریاں پیش کریںگے۔ آخر کار یہ تحریک شروع ہو گئی تقریباً 15,10دنوں کے بعد دیگر جماعتوں کی طرف سے گرفتاریاں پیش کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی جبکہ عوامی تحریک کی طرف سے روزانہ کسان ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے صحافیوں کے ساتھ گرفتاریاں پیش کرتے رہے‘ ان دنوں کراچی یونین آف جرنلسٹس کاجنرل سیکرٹری تھا لہٰذا اس تحریک کے لئے جو خفیہ کمیٹیاں بنائی گئیں ان میں سے ایک میں‘ میں بھی تھا‘ مجھے جو ذمہ داری دی گئی تھی اس کے تحت ایک دن میں ایک خاص مشن کے تحت پی پی آئی نیوز ایجنسی کے دفتر پہنچا۔ سندھ کے اسپیشل برانچ کے کارندوں کوکسی طر ح پتا چل گیا کہ میں پی پی آئی کے دفتر آیا ہوا ہوں لہٰذا ان کی ایک ٹیم نے دفتر کا گھیرائو کرکے گرفتار کرلیا اور مجھے کراچی سینٹرل جیل کے حوالے کیا گیا۔ اس دوران پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے صحافی‘ طلبا اور مزدور بھی گرفتار ہو چکے تھے ان میں سے کچھ کو کراچی سینٹرل جیل جبکہ دیگر کو سندھ کی مختلف جیلوں کی طرف روانہ کیا گیا ان میں سے برنا صاحب کو خیرپور کی جیل میں قید رکھا گیا۔ جب مجھے کراچی سینٹرل جیل کے ایک سیل میں لایا گیا تو اس میں دیگر صحافیوں کے علاوہ دوسینئر صحافی بھی مقید تھے اور عوامی تحریک کے پلیٹ فارم اور سندھ کے اندرونی علاقوں سے تعلق رکھنے والے دو کسان بھی تھے۔ رات کو روزانہ کچہری ہوتی تھی اور خاص طور پر سیاست پر تبادلہ خیال ہوتا تھا جس میں یہ کسان بھی حصہ لیتے تھے، ایک رات لاہور سے آئے ہوئے ایک سینئر صحافی مجھے سیل کے ایک کونے میں لے گئے اور کہنے لگے کہ یار ان دونوں کو کسان کرکے پیش کیاگیا ہے مگر یہ تو بول چال سے اور رویے سے دانشور لگتے ہیں۔ جب میں نے تصدیق کی کہ یہ دونوں کسان ہیں اور ان کا عوامی تحریک سے تعلق ہے اس پر لاہور کا دوسرا سینئر صحافی بھی ہمارے قریب آیا اور ہماری اس گفتگو میں شامل ہوگیا۔ دونوں نے حیرت ظاہر کی کہ رسول بخش پلیجو اور فاضل راہو نے سندھ کے کسانوں کی ایسی سیاسی تربیت کی ہے کہ وہ انتہائی مہذب دانشوروں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ کچھ دنوں بعد میرے علاوہ تقریباً 10دیگر قیدیوں کو حیدر آباد سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔ حیدرآباد جیل میں یہ ہمارا پہلا دن تھا۔ شام کے وقت ایک جونیئر جیلر ہمارے سیل کے گیٹ کے پاس آکر میرا نام لینے لگا۔ جب میں گیٹ کے پاس پہنچا تو جیلر نے مجھے سلاخوں کے قریب آنے کا اشارہ کیا اور کان میں کہا کہ میرے ہاتھ سے ایک چٹ لے لو۔ یہ چٹ آپ کے لئے فاضل راہو صاحب نے بھیجی ہے آپ یہ چٹ پڑھ لیں میں آدھے گھٹنے کے بعد گیٹ کے پاس آئوں گا اور آپ اس کا جواب لکھ کرخاموشی سے میرے حوالے کردیجئےگا۔ (جاری ہے)