اسلام کے راہ نما اصول

January 31, 2020

ڈاکٹر ناظمہ شینا اسد

انسان صدیوں سے اپنی بقا اور بہتری کے لئے کوشاں ہے۔ہردور میں انسانوں نے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجودکوئی ایسا نظام لانے میں کامیاب نہ ہوسکے، جس سے تمام انسانیت کی بھلائی اور خیر خواہی ہو ۔ انسانوں کی تگ ودو اپنی قوم، اپنے ملک اور اپنے مذہب تک ہی محدود رہی، جس کے نتیجے میں کچھ قومیں اور ملک بہت آگے نکل گئے،جب کہ باقی گراوٹ کا شکار ہوگئے۔جب کہ بلندوبالا قومیں بھی پستی کی گہرائیوں میں چلی گئیں، وقت اور زمانے کی گردش سے اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسان کوسب سے بہترین مخلوق ہونے کی وجہ سے اشرف المخلوقات قرار دیا اور اس کی فلاح کے لیے پیغمبروں کو بھیجا، جنہوں نے لوگوں کوہدایت کے لئے اللہ کی کتابوں پر عمل کرنے کی ترغیب دی ۔

ہم ہرسال 12ربیع الاوّل بڑے جوش وجذبے سے مناتے ہیں، لیکن آنے والے مہینوں میںگویا آپﷺ کی تعلیمات کوبھول جاتے ہیں۔ اگرہم کوشش کریں کہ ہر مہینے کسی ایک سیرت کے پہلو پرعمل کریں تو بارہ مہینوں میں بہت کچھ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔اس کے لئے ہمیں قرآن سے رہنمائی ملتی ہے کہ ’’ یقیناً تمہارے لیے رسولﷺ کی ذات بابرکات میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘اس لئے ہمیں تمام معاملات زندگی میں آپﷺ کی پیروی کرنی چاہیے۔اللہ نے آپﷺ کے لئے قرآن کی سورۃ القلم میں فرمایا ’’ بے شک، آپﷺ بہت عمدہ اخلاق پر ہیں‘‘۔سورۃ الانبیاء میںفرمایا گیا : ’’ اور ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘حضوراکرم ﷺ کا ارشاد ہے ’’جس کےاخلاق زیادہ اچھے ہیں، اس کا ایمان زیادہ کامل ہے۔‘‘ لایعنی اور بیکار باتوں سے پرہیز اسلام کاحسن ہے۔

آج کل بے کار اور لایعنی باتوں اور خبروں کی بھرمار ہے۔ میڈیا میں ہر وقت ہیجان اور بے چین کرنے والی خبریں اور تبصرے چل رہے ہوتے ہیں، جب کہ قرآن میں فرمایاگیا کہ ’’ اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا۔‘‘( سورۃ البقرہ آیت۸۳)’’ اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ بہت اچھی بات منہ سے نکالا کریں‘‘۔’’ اور بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہایت اچھی ہو اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ لوگوں سے ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں ،کیوں کہ شیطان بری باتوں سے ان میں فساد ڈلوادیتا ہے۔‘‘ ( سورۂ بنی اسرائیل آیت53)نیزفرمایاگیا(ترجمہ)’’ اور بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہایت اچھی ہو ‘‘۔( سورۃ المومنون آیت96)(ترجمہ)’’ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتے اور سخت کلامی کا ایسے طریقے سے جواب دو جو بہت اچھا ہو ایسا کرنے سے تم دیکھو گے کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی، وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے‘‘۔ سورۂ حٰم سجدہ)

حضوراکرمﷺ کے اخلاق ایسے ہی تھے ۔ مسکراتا ہوا چہرہ، شفیق اور ملنسار، معاف اور درگزر کرنا، سب کی خیرخواہی کرنا۔عاجزی اور انکساری اختیار کرنا۔حدیث میں ہے’’ مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرےمسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارا عمل ذاتی اور بہ حیثیت قوم کے بالکل برعکس ہے‘‘۔’’ اور اگر معاف کردو اور درگزر کردو اور بخش دوتو اللہ بھی بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔جیسا کہ رسول اکرمﷺ نے فتح مکہ کے بعد بدترین دشمنوں کو معاف کردیا۔

زبان سے فتنے کے علاوہ جودوسرا فتنہ جس کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا ’’ میری قوم کا فتنہ مال ہے‘‘۔ ( ترمذی شریف)یہ فتنہ پورے زوروشور سے ہمارے اعصاب کو شَل کررہا ہے۔ ہر شخص سمجھتا ہے کہ مال کی بہتات اس کے لئے عزت اور آسائش فراہم کرسکتی ہے۔ اسی لیے جائز اور ناجائز کا فرق مٹ گیا ہے۔اس کے برعکس حضور اکرمﷺ نے اپنے لئے فقر کو پسند فرمایا۔ جب کہ اللہ نے آپﷺ کو اختیار دیا تھا کہ وہ چاہیں تو بادشاہت کو اپنائیں۔ہم حلال رزق اور سادگی اختیار کرسکتے ہیں۔اللہ نے مال کی محبت کم کرنے کے لئے اور ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے زکوٰۃ اور خیرات کا نظام وضع کیا ۔ سورۃ البقرہ کی آیت3میں فرمایا’’ جو غیب پرایمان لاتے ہیں اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے ،اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ضرورت سے زیادہ مال خرچ نہ کرنا اور کیسے خرچ کرنا وہ بھی بتا دیاگیا ہے، لیکن حلال کمائی کی اہمیت ایک حدیث سے واضح ہے۔’’ جو شخص حلال کمائی کے لئے سفر کرے گا، وہ حشر کے میدان میں اللہ کے عرش کے سائے میں ہوگا۔‘‘’’ مومنو،دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، اور نہ اسے (رشوت کے طورپر) حاکموں کے پاس پہنچاؤ، تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پرکھا جاؤ اور(اسے) تم جانتے بھی ہو۔‘‘’’ مال کوباوجودعزیز رکھنے کے رشتے داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں اور مانگنے والوں کودیںاور گردنوں( کے چھڑانے) میں(خرچ کریں)‘‘ ( سورۃ البقرہ )نیز فرمایا گیا:مومنو! جب تک تم ان چیزوں میں سے جوتمہیں عزیز ہیں( اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو گے، کبھی نیکی حاصل نہ کرسکو گے۔‘‘ ( سورۂ آل عمران)

(…جاری ہے…)