دینی مسائل علماء سے پوچھے جائیں

January 31, 2020

تفہیم المسائل

سوال: نمازِ مغرب کی پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کی چند آیات پڑھنے کے بعد امام کی آواز بالکل بند ہوگئی ۔امام صاحب نے نماز توڑ کر مؤذّن کو مصلّے پر کھڑا کردیا اور مؤذّن نے نئے سرے سے نماز پڑھادی ۔کیا امام کایہ عمل خلافِ شریعت اور گناہ ہے ،استخلاف افضل ہے یا استیناف ؟ ،نیز مقتدیوں میں کوئی غیر عالم شرعی مسائل بتاسکتا ہے؟ (سید نذید حسین شاہ ، کراچی )

جواب:کسی بھی عذر کے سبب نماز توڑ دینا خلافِ شرع یا گناہ نہیں ہے، فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اس طرح کی صورت میں جاری نماز پر بناکرنے کے بجائے ازسرِ نو نماز پڑھنا افضل ہے ،اسے فقہی اصطلاح میں ’’استیناف ‘‘ کہتے ہیں ۔علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابوبکر ؒلکھتے ہیں:’’ اختلاف کے شبہے سے بچنے کے لیے ازسر، نو نماز پڑھنا افضل ہے ‘‘،اس کے حاشیہ میں شیخ عبدالحئی لکھنوی ’’بنایہ ‘‘کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’ استیناف یعنی نماز پر بناکرنے کے بجائے ازسرِنونماز پڑھنا افضل ہے‘‘۔(الہدایہ ،جلد1،ص:250)علامہ زین الدین ابن نُجیم حنفی ؒلکھتے ہیں:’’صاحبین کامذہب یہ ہے کہ(کسی کو خلیفہ بنانے کے بجائے) نئے سرے سے نماز پڑھے اور اس کی تصریح فخرالاسلام نے’’ شرح جامع الصغیر‘‘ میں فرمائی ہے‘‘۔(البحرالرائق ،جلد1،ص:650)

فقہی مسائل پر کلام کرنا یا فتویٰ صادر کرنا اہلِ علم حضرات کا کام ہے ،شرعی اور فقہی مسائل سے نابلد لوگوں کو احتیاط برتنا چاہیے ،حدیث پاک میں ہے:’’جس نے علم کے بغیر (خلافِ شرع) فتویٰ دیا (اور کسی نے اس غیر شرعی فتوےپر عمل کیا )تواس عمل کرنے والے کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا اور جس نے دانستہ اپنے دینی بھائی کی رہنمائی ناحق بات کی طرف کی ، تواس نے اُس کے ساتھ خیانت کی ‘‘۔(سُنن ابو داؤد:3657)

ایک طویل حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے علمِ حق اٹھ جانے کی بابت بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ علمائے حق اٹھتے چلے جائیں گے اورایک وقت ایساآئے گا ،حتیٰ کہ جب کوئی عالمِ ربانی باقی نہیں رہے گاتولوگ جاہلوں کو پیشوا بنائیں گے، پھر اُن سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ جہل پر مبنی فتوے دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ (بخاری:100)

لوگوں کو شرعی مسائل معلوم نہیں ہوتے اوروہ عالم پر اعتماد کرنے کے بجائے خواہ مخواہ شرعی اُمور میں دخل اندازی کرتے ہیں اورکسی حدتک امام کے بارے میں ناگواری کے جذبات رکھتے ہیں، تاہم اَئمہ وخطبائے کرام کو وقتاً فوقتاً مسائل بیان کرتے رہنا چاہیے ، کیونکہ امام جب کسی صورت مسئلہ میں مبتلاہو تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اپنے لیے کوئی نہ کوئی صورتِ جواز نکال لیتے ہیں۔