کرپشن اور ایف اے ٹی ایف کا معاملہ

February 02, 2020

تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں بھی حکومتی سطح پر کرپشن واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ کرپٹ مافیا نے کسی شعبے کو نہیں چھوڑا۔ وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بیورو کریسی میں متعدد بار اکھاڑ پچھاڑ کرنے کے باوجود مطلوبہ نتائج کا نہ ملنا اربابِ اقتدار کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ نااہل حکمران ملک و قوم پر مسلط ہو چکے ہیں۔ اداروں کو متنازع بنانے اور ان کے پیچھے چھپنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف حکومت کے پاس ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ مسترد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما جب خود اپوزیشن میں تھے تو قوم کے سامنے ایسی رپورٹوں کی گردان کرتے نہیں تھکتے تھے۔ آنکھیں بند کرنے سے خطرات ختم نہیں ہو جائیں گے۔ 99فیصد عوام مہنگائی سے شدید متاثر ہیں۔ تمام غیر سرکاری سروے حکومت کو ناکام قرار دے رہے ہیں۔ اتحادیوں سمیت پوری قوم تحریک انصاف حکومت سے ناراض جبکہ وفاقی وزراٗ صرف اور صرف وزیراعظم کی مدح سرائی میں مصروف ہیں۔ وزرا کی فوج ظفر موج قومی خزانے پر بھاری بوجھ بن چکی ہے۔ عوام نے جس تبدیلی کے لیے تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ کہیں نظر نہیں آ رہی۔ حکومت نے نئی بھرتیوں کا اعلان کیا تھا لیکن صرف دس روز بعد ہی اس اعلان سے راہِ فرار اختیار کرنے کی خبریں میڈیا میں آرہی ہیں۔ پورا ملک مافیا کے کنٹرول میں جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ریلوے کو بدترین ادارہ قرار دینا بھی متعلقہ وزیر شیخ رشید سمیت پوری حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل اور دیگر اَن گنت ادارے انتہائی دگرگوں حالت میں ہیں۔ خسارہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ملک میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جو اپنے اہداف پورے کر رہا ہو۔ ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزرا اسمبلیوں کے اندر اور باہر جھوٹ بولنے اور یوٹرن کے تمام ریکارڈ اپنے نام کر چکے ہیں۔ بتدیلی کا نعرہ مذاق اور ریاستِ مدینہ کا خواب ادھورا رہ گیا ہے۔ موجودہ حکمران ہر محاذ پر بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص نالائق حکمرانوں کی کارکردگی پر نالاں دکھائی دیتا ہے۔ معیشت دگرگوں اور تاجر مایوس ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ جو حکومت گزشتہ 18مہینوں میں مہنگائی کنٹرول اور مافیا کو گرفت میں نہیں لا سکی وہ آئندہ ڈھائی برسوں میں بھی محض کھوکھلے نعرے لگانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ جب تک کپتان کی ٹیم نااہلوں اور مفاد پرستوں پر مشتمل ہے اس وقت تک کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اقربا پروری اور سفارشی کلچر نے موجودہ حکمرانوں کو بھی بےنقاب کر دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اگر معلوم ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف کون سازشیں کر رہا ہے تو ان کو آخر بےنقاب کیوں نہیں کرتے؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو تحریک انصاف کے لوگوں سے ہی خطرہ ہے۔ کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ افراد کو عبرت کا نشان بنانے کے دعویداروں نے ہی مالم جبہ اور بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ حکمرانوں نے 18ماہ میں جتنے اقدامات کیے ہیں، ان کے نتائج سے 22کروڑ عوام کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرح حکومت پنجاب بھی بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی اب تک کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ عوام توقع کر رہے تھے کہ پسماندہ ضلع سے تعلق رکھنے والے عثمان بزدار جنوبی پنجاب کی ترقی و خوشحالی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر ہنگامی اقدامات کریں گے مگر بدقسمتی سے وہ برائے نام وزیراعلیٰ بن کر رہ گئے ہیں۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے معاملے پر حکومت کو سنجیدہ طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے امریکی پیشکش ایک نئی چال ہے جس کا مقصد پاکستان کو ’’ڈو مور‘‘ پر راضی کرنا ہے۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی ہے۔ اس کی دوستیاں اور دشمنیاں صرف اور اپنے اغراض و مقاصد کے ساتھ نتھی ہیں۔ بدقسمتی سے موجودہ حکمران بھی امریکی آقاؤں کو خوش کرنے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ کشمیر کامسئلہ ساری دنیا کے سامنے ہے، بھارت نے جس طرح کشمیریوں پر چھ ماہ سے کرفیو نافذ کر رکھا ہے اس پر امریکہ اور اقوام متحدہ کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے۔ فلسطین، میانمار اور دنیا کے وہ تمام ممالک جہاں مسلمانوں پر بدترین تشدد کیا جا رہا ہے وہاں امریکہ کو انسانیت نظر کیوں نہیں آتی؟ جس طرح پاکستان اور اس کے 22کروڑ عوام نے نائن الیون کے بعد 70ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ملکی معیشت کو پہنچنے والا نقصان برداشت کیا اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ دہشت گردی کی مالی امداد کرنے والے متعدد افراد خود امریکہ، بھارت دیگر یورپی ممالک سے گرفتار ہوئے ہیں، ان ممالک کے خلاف ایف اے ٹی ایف نے آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں؟

وفاقی دارالحکومت میں غیر ملکی سفارتخانے کی گاڑی کی ٹکر سے 2افراد کی ہلاکت کا معاملہ تشویش ناک اور انتہائی قابل مذمت ہے۔ اگر ریمنڈ ڈیوس کو قانون کے مطابق سزا مل جاتی تو کسی کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ پاکستانی قانون کے ساتھ کھلواڑ کرتا۔ ریمنڈ ڈیوس کے بدلے ہمیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ سے رہا کروانا چاہیے تھا مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری قومی غیرت سو چکی ہے، ہماری زبانیں گنگ ہو چکی ہیں۔ ہمارے حکمران خدا سے نہیں بلکہ امریکہ سے ڈرتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں بھی اس اہم قومی ایشو پر سیاست چمکائی گئی، اب عمران خان حکومت بھی اپنے دعوئوں کی نفی کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈاکٹر عافیہ صریقی کے اہل خانہ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو جلد امریکہ سے رہا کروا کر پاکستان واپس لائیں گے لیکن ان کا یہ وعدہ بھی پورا نہیں ہو سکا۔