ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ!

February 02, 2020

’’نوجوان ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان پر ہم جس قدر خرچ کریں گے ملک اتنا ترقی کرے گا۔ آپ سے ایک بات کہتا ہوں کہ نوجوانو! ہمت نہیں ہارنا، اس ملک کو بدل کر دم لیں گے۔ ایک وقت آئے گا پاکستان دنیا کا عظیم ترین ملک بنے گا‘‘۔ یہ الفاظ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب کے ہیں جو انہوں نے کراچی میں ’’کامیاب نوجوان پروگرام‘‘ کے نوجوانوں میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ادا کیے۔ جنہیں سن کر احساس ہوا کہ میں نوجوانوں کے لئے ایسی تجاویز پیش کروں جن پر عملدرآمد کرکے ہم تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کے بارے میں جو خیالات پیش کیے گئے ان سے مجھے ممتاز امریکی مصنف ’’سیموئل بی ہنگٹنگٹن‘‘ کی کتاب کا اقتباس یاد آگیا جو انہوں نے ’’کلیش آف سولائزیشن‘‘ میں لکھا ہے ’’قوموں کی زندگی میں جو انقلاب آتا ہے وہ نوجوان ہی کی قوت اور طاقت سے آتا ہے۔ اس میں خطرے کی بات یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کے پاس نوجوانوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ 18سال سے 35سال کے نوجوان پوری دنیا میں جتنے بھی ہیں، اس وقت ان کا 60سے 65فیصد اُمت مسلمہ کے پاس ہے۔ اس لیے اُمت مسلمہ کی آبادی بہت زیادہ ہے‘‘۔ مصنف نے اُمتِ مسلمہ کے وسائل میں سب سے قیمتی سرمایہ نوجوانوں کو قرار دیا ہے۔ آج کا جدید مفکر یہ سمجھتا ہے کسی بھی قوم میں اگر انقلاب آتا ہے یا ان میں کوئی بڑی تبدیلی آتی ہے تو اس میں سب سے اہم کردار نوجوانوں کا ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے آج کے مسلمان نوجوان کو اپنی اہمیت کااندازہ ہی نہیں ہے۔ امریکی مصنف نے اپنے مضمون میں اس بات کا تفصیل سے ذکر کیا ہےکہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد مسلم علاقوں کو کس طرح تقسیم کیا گیا۔ خلافتِ عثمانیہ کو کس طرح پاش پاش کیا گیا۔ رنگ ونسل اور مذہب کی بنیاد پر کس طرح ریاستیں وجود میں لائی گئیں، اس بھیانک منصوبے میں بھی نوجوانوں کو استعمال کیا گیا جن کے لہو میں ’’عرب قومیت‘‘ کی زہریلی گرماہٹ شامل کرکے مقصد میں کامیابی حاصل کی گئی۔ گزشتہ 70سال سے اسلام دشمن طاقتیں خصوصاً امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی کوشش ہے کہ مسلم نوجوانوں کو پنپنے نہ دیا جائے۔ آج وطنِ عزیز کا باصلاحیت نوجوان انتہا پسندی کی دہلیز تک پہنچ چکا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے ایک بگڑے ہوئے باغی نوجوان سے کہا کہ آپ سامراجی طاقتوں کے آلہ کار بن کر آزاد صوبے کا نعرہ تو نہیں لگا رہے؟ اگر ایسا ہے تو یاد رکھیں بھیڑ بکری چرانے والے بلوچ کو کچھ نہیں ملے گا۔ وہ گیس اور دیگر معدنیات نکال کر بلوچستان کو اتنی رائلٹی بھی نہیں دیں گے جتنی اب ان کو مل رہی ہے‘‘۔ معروضی اور زمینی حقائق اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ عراق پر امریکی حملے کے بعد ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ 2003ء کے بعد سے اب تک عراق سے چالیس بلین ڈالر کا تیل لوٹ چکا ہے۔ امریکہ اس وقت تک انخلا نہیں کرے گا جب تک یہاں تیل کا ایک قطرہ بھی موجود ہے۔ یہی کھیل افغانستان میں کھیلا گیا۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد 2005ء میں امریکی حکومت نے افغانستان کے ساتھ قدرتی ذخائر کی تلاش اور انہیں نکالنے کا ایک معاہدہ اور سمجھوتہ کیا تھا۔ اس معاہدے پر کٹھ پتلی افغان انتظامیہ کے باقاعدہ دستخط ہیں۔ مصدقہ رپورٹ کے مطابق معاہدے کی رو سے ذخائر کی تلاش اور نکاسی کے بعد امریکہ انہیں استعمال کرے گا بلکہ کر رہا ہے جبکہ افغانستان کو معمولی رائلٹی ملے گی۔ عراق اور افغانستان کی زمینیں سونا اگل رہی ہیں لیکن عراقی اور افغان عوام کی حالت یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ طبی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے حالتِ زچگی میں عورتیں مر رہی ہیں۔ بچے بھیک مانگ رہے ہیں، وہ پڑوسی ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ افغان نوجوان تقریباً چار دہائیوں سے مسلسل حالت ِ جنگ میں ہیں، جذبۂ انتقام میں ان کے اندر لاوا پک رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں وطنِ عزیز کے بعض نوجوانوں کو بھی سبز باغ دکھاکر اور حقوق کا جھانسا دے کر بغاوت پر اُکسایا جا رہا ہے، تھر میں معدنی ذخائر اتنے ہیں کہ سو سال تک کافی ہیں، کراچی بندرگاہ دنیا بھر کی قدرتی اور بہترین بندرگاہ شمار ہوتی ہے۔ خیبرپختونخوا کا پتھر اتنا قیمتی ہے کہ دنیا بھر میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ ملک و قوم کے رہنما اور باصلاحیت نوجوان یاد رکھیں! پاکستان کرۂ ارض پر اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جس کی جڑوں میں مسلمانوں کا خون شامل ہے۔ اس قوم کے مقدر کا ستارہ ہونہار اور باصلاحیت نوجوان ہیں۔ آج اگر نوجوان اپنے ’’حقوق‘‘ کےنام پر اسے گزند پہنچائے گا تو اسے تاریخ کی سب سے بڑی بدقسمتی کہا جائے گا۔ بے شک وزیراعظم پاکستان نے نوجوانوں سے مخاطب ہوکر درست کہا کہ ا ے نوجوانو! میرے پاس تم ہو، تم میرا مان ہو۔ نوجوانوں کی مثبت سرگرمیوں کی طرف رہنمائی کرنی چاہئے۔ بعض قوتیں، مسلم نوجوانوں کو ذہنی طور پر انتشار میں مبتلا کر رہی ہیں جس سے معاشرے میں ایک خلیج پیدا ہو رہی ہے۔ نوجوان خود کو دیوار سے لگا محسوس کر رہے ہیں۔ انہیں علم نہیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ جدید علوم و فنون میں مہارت حاصل کیے بغیر مسلمانوں کی ترقی ممکن نہیں۔ اگر دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو جدید علوم حاصل کریں۔