ٹیلی وژن کا موجد جان لوگی بیئرڈ

February 08, 2020

حبا

ساتھیو! جیسا کے آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل کی نعمت عطا کی۔ اس نعمت کو استعمال کرتے ہوئے انسان اپنی زندگی کو آسان اور آرام دہ بنانے کے لئے ایجادات کرتا چلا آیاہے۔کچھ چیزیں تو حادثاتی طور پر ایجاد ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر چیزیں جو دور حاضر کی ترقی کا راز ہیں وہ انسان نے خود ’’ضرورت ایجاد کی ماں‘‘ کے تحت ایجاد کی ہیں۔

شروع میں جب انسانی آبادی کم تھی تو وہ ایک ہی جگہ پر رہتا تھا لیکن آبادی میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے خوراک اور رہائش کی تلاش میں انسان زمین کے مختلف حصوں میں آباد ہوتا گیا،جس کے نتیجہ میں ایک دوسرے سے رابطہ کرنا اور حالات سے واقفیت حاصل کرنامشکل ہوگیا۔ بعدازیں ڈاک کے نظام نے کچھ حد تک تو اس مشکل کو آسان کیا ،تاہم اس طریقہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام پہنچانے میں کافی وقت لگ جاتا تھا۔

انیسویں صدی میں ٹیلی فون اور ریڈیو کی ایجاد نے ذرائع ابلاغ کو ایک نیا رنگ دیا،جس کی وجہ سے ایک مقام سے دوسرے مقام تک آواز کو پہنچانا ممکن ہوگیا۔ اسی دور میں سکاٹ لینڈ کے ایک سائنس دان جان لوئی بیرڈ (Jhon Logie Baired) نے آواز کے ساتھ تصویر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا تجربہ کیا، جس کے نتیجہ میں ٹیلی ویژن ایجاد ہوا۔یہ داستان کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک دن وہ سمندر کے کنارے ٹہل رہا تھا کہ اس کے کانوں میں گانے کی آواز آئی۔اس نے حیران ہوکر ادھر اُدھر دیکھا تو پتا چلا کہ ایک ہوٹل میں ریڈیو بج رہا ہے۔

اس نے سوچا کہ ہوا کی لہروں پر آواز کتنی دور چلی جاتی ہے! کیا ان لہروں پر تصویر ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جاسکتی؟اسے فوٹو گرافی کا شوق تھا اور وہ کئی مرتبہ تصویروں اور بجلی کے تاروں پر تجربہ کر چکا تھا۔ اس نے ارادہ کر لیا کہ وہ ہوا کی لہروں پر تصویریں بھیج کر رہے گا۔ اس نے اسی دن ایک صندوق، کپڑے سینے کی چند سوئیاں، بسکٹوں کا ایک ڈبا، سائیکل کے لیمپ کا شیشہ،کچھ بیٹریاں، بجلی کے تار اور بہت سا موم اکھٹا کیا۔اس کے بعد بجلی سے چلنے والی ایک پرانی موٹر خریدی اور اس سامان کو لے کر ایک کمرے میں بند ہوگیا۔ ایک عرصہ تک وہ دن رات اسی کمرے میں تجربے کرتا رہا۔ اس کے سامنے ایک پردہ لگا ہوا تھا۔

آخر ایک دن اس پردے پر تصویر آگئی لیکن وہ کچھ زیادہ صاف نہ تھی۔ اس پر بیرڈ نے زیادہ تیز روشنی استعمال کرنے کا سوچا، اس نے ایک ہزار بیٹریاں ایک ساتھ رکھ دیں اور کئی دنوں کی محنت کے بعد آخر پردے پر صاف تصویریں لانے میں وہ کامیاب ہوگیا۔ اب بیرڈ نے کئی مشہور سائنس دانوں کو اپنا یہ کارنامہ دکھایا۔یہ سائنس دان بھی ٹیلی وژن ایجاد کرنے کی فکر میں تھے۔ انہوں نے بیرڈ سے کہا کہ تم نے میدان مار لیا۔ اگلے ہی دن برطانیہ کے تمام اخبارات میں بیرڈ کی حیرت انگیز ایجاد کا حال چھپ گیا۔ یہ 1926ء کی بات ہے۔

30 دسمبر 1929ء کو بی بی سی لندن نے ٹیلیویژن کا جو پہلا پروگرام پیش کیا۔اس میں بیرڈ کا ہی طریقہ استعمال کیا گیا تھا۔اس کے بعد بہت سے سائنس دانوں نے ٹیلی ویژن میں اصلاحیں کیں اور بیرڈ کے طریقے سے ہٹ کر دوسرے طریقے ایجاد کئے۔ لیکن ٹیلی ویژن کا بانی بیرڈکو ہی مانا جاتا ہے۔

ٹیلی ویژن دولفظوں کے مجموعہ سے بنا ہے۔ ٹیلی یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب’’دور یا بعید‘‘ ہے جبکہ ویژن انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ’’نظر یا دیکھنا‘‘ ہے۔ ٹیلی ویژن ایک ایسا آلہ ہے، جس کی مدد سے کسی سٹوڈیو یا کسی جگہ کا پروگرام ہم اپنے گھر پر انٹینا، کیبل یا ڈش کے ذریعہ سے دیکھ سکتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر دیکھے جانے والے پروگرام پہلے ایک ٹیلی ویژن اسٹیشن سے بذریعہ بوسٹریاسیٹلائٹ نشر کئے جاتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر انہیں دیکھنے کےلئے ہم اینالاگ انٹینا یا ڈش کا استعمال کرتے ہیں یا ہمارے کیبل آپریٹر انہیں بذریعہ کیبل ہمارے گھروں تک پہنچاتے ہیں۔

1926ء میں ایجاد ہونے والے بیرڈ کے مکینیکل ٹیلی ویژن کے بعد الیکٹرانک ٹیلیویژن ایجاد ہوا ،جس میں چرخی،موٹر اور دوسرے پرزوں کی جگہ کیتھوڈ ٹیوب استعمال کی جانے لگی۔یہ ٹیلی ویژن بھی بلیک اینڈ وائٹ تھا۔ 1953 ئمیں پہلا کلر ٹی وی متعارف کروایا گیا۔ الماری کے سائز سے شروع ہونے والا یہ ٹیلی ویژن آخر پلازما ٹیلی ویژن کی صورت اختیار کرگیا،جس کی موٹائی بہت کم ہوتی ہے اور ہموار سکرین ہوتی ہے، جبکہ عام ٹیلی ویژن میںا سکرین میں گولائی پائی جاتی ہے۔

ٹیلی ویژن کی تاریخ میں سب سے اہم تبدیلی ایل سی ڈی (LCD) ٹی وی کی ایجاد سے آئی۔ یہ Liquid crystal display کا مخفف ہے۔یہ عام ٹی وی کی نسبت کم بجلی استعمال کرتی ہے۔ایل سی ڈی دو قسم کے ٹی وی پر مشتمل ہے ۔ ایک جس میں fluorescent استعمال کئے جاتے ہیں اور دوسرا جس میں LEDs استعمال کئے جاتے ہیں۔جسے LED TV کہتے ہیں ۔

یہ Light-emitting diode کا مخفف ہے۔ یہ LCD کی نسبت کم بجلی استعمال کرتا ہے۔ٹی وی میں اس وقت سب سے نئی دریافت OLED کی ہے جو LCD کی نسبت زیادہ باریک اور ہلکی ہوتی ہے۔یہ کلرز کو زیادہ صحیح انداز میں پیش کرسکتی ہے۔ LCD کی نسبت اس میں کسی بھی زاویہ سے دیکھنے پر اس کے کلرز میں فرق نہیں آتا۔ البتہ یہ ٹیکنالوجی اس وقت مہنگی اور کمیاب ہے۔