’چیچڑوگاؤں‘ ماضی کا پرشکوہ قصبہ، آج رو بہ زوال ہے

February 18, 2020

۔Indus Valley Civilization یعنی وادی سندھ کی تہذیب بنو آدم کی چند ابتدائی تہذیبوں میں سے ایک ہے، جو ہزاروں سال قدیم ہے۔ اس کی ابتداء دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کےقرب وجوار سے ہوئی۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو اس کے اہم مراکز تھے۔ موئن جو دڑوسے کے قدیم آثارسے ملنے والے شواہد کے مطابق اس تہذیب کےباسی پکی اینٹوں کی مددسے مکانات بناتے تھے۔ انہوں نے پہیہ ایجاد کیا جس کے بعد ان کے پاس سفری ذرائع کے طور پربیل گاڑياںوجود میں آگئیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے،۔

نظریہ ضرورت کے کلئیے یعنی (Doctrine of Necessity)کے تحت دریائے سندھ کے کنارے جو شہر یا گاؤں بسائے گئے، دریا کا رخ تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی جگہ اور مقام بھی بدلتے رہے۔ وادی مہران اس قدیم دریا ’’دریائے ہا کڑا‘ پر آبادہوئی تھی۔ یہ دریا قدیم دور میں سندھ کے مشرق کی طرف سے نکلتا تھا اورمیر پور ما تھیلو ( مو مل جی ماڑی )چیچڑو ،اروڑحالیہ روہڑی اور عمر کوٹ سے ہو تا ہوا دیبل تک جا تا تھا۔

سندھ کے تاریخ دانوں کے مطابق چیچڑو را ئے حکم رانوں کے دور میں ماتھیلو اور اروڑ کو ملا نے والی گزرگاہ جسے بادشاہی سڑک کہا جاتا تھا ، ایک منزل تھا جب کہ دو سری جانب ما تھیلو سے رو ہڑی جانےوالی لشکری سڑک پر بھی اس بستی کا وجود تھا۔یہاں را جہ دا ہر کے قلعہ اور قدیمی مسجد محمد بن قاسم کے آثار ابھی بھی مو جود ہیں۔

ما تھیلو کے قلعے سےمجا ہد خان کا لشکر گورنر ابو الخیر کی قیادت میں اوربکھر سے سلطان محمود کو کلتاش اپنی فوج کے ہمراہ اسی مقام پر جنگ کے لیے آئے۔سندھ کی مشہور تواریخ ’’ مظہری شاہجہانی ‘‘اور’’ تاریخ معصومی ‘‘کے مطا بق لڑائی میںگورنر سمیت کو کلتاش کی فوج کےسیکڑوں افرادما رے گئے اور زین العابدین شکست کھاکر وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوا۔ لڑائی کے دور ان مارے جانے والے تمام افراد کی تدفین چیچڑو کے قرب و جوار میں کی گئی۔جنگ کے اختتام پر مجا ہد خان، ماتھیلوسے چیچڑو کی طرف جانے والی والی سڑک کے ذریعے ’’پہنواری‘‘ سے کشتیوں کے ذر یعے دریا پار کر کے بکھر پہنچا۔

چیچڑو کا قصبہ 1940 ء سے قبل ایک تجا رتی مر کز تھا جس کے آثار ابھی بھی باقی ہیں جن میں مٹی سے تعمیر کی گئی قدیم عمارتیں اور با زار شامل ہیں۔ اس شہر میں ہندوکثیر تعداد میں آباد تھےجن کی بڑی تعداد مغل بادشاہ عالم گیرکے زما نے میں مشرف بہ اسلام ہوئی تھی لیکن ان کے رسم و رواج میں مسلمان ہونے کے بعد بھی ہندووانہ تہذیب کی جھلکیاں نمایاں طور سے موجود تھیں۔

چیچڑو کے بارے میں مشہور مؤرخ اورصحافی ،مو لا نا دین محمد وفا ئی نےاپنے اخبار تو حید میںمضامین شائع کیے۔ ان میں رقم کیا گیا ہے کہ ’’ اس قصبے میں ایک پرا ئمری اسکول ہے جس کی عما رت انتہائی قدیم ہے جس میں مغلیہ طرز تعمیر کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ چیچڑو کے قصبے میں سنت ایسر داس کی مڑھی کے آثار تا حا ل مو جود ہیں ۔ ایسر داس کی سما دھی پر ایک مقبرہ بنا ہوا ہے جس کے ساتھ ایک کنواں بھی مو جود ہے۔ اس سما دھی پر سندھ اور ہندوستان کے عقیدت مند حا ضری دینے کے لیے آتے ہیں۔اس قصبے میں مہیسر قوم کا سردار عیسیٰ خان رہتا تھا جس کو مغل بادشاہوں نے سند حکمرانی عطا کی تھی۔سندھ کے بیشتر مقامات پر عیسـی خان کے خاندان کی تعمیر کردہ ایک قدیم مسجد تا حا ل مو جود ہے ۔ تقسیم ہند کے بعد ہندو تو بھارت چلے گئے لیکن ان میں سے جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے،ان کی اولادیںچیچڑو سے ہجرت کرکے پنو عاقل میںآباد ہو گئیں، جو شیخ قوم کے نام سے معروف ہیں۔

چیچڑو کے قصبے میں ایک تا ریخی قبرستان کے آثار بھی ملے ہیں جس کے بارے میں قدیم آثار کے ماہرین، پروفیسر سر ور سیف ، پرو فیسرغلام مر تضیٰ کلوڑ اور فضل اللہ مہیسر کی را ئے ہے کہ بکھر اور ماتھیلوکے سرداروں کے درمیان جنگ کے دوران قتل ہونے والے سپاہوں کو اسی مقام پر دفن کیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ قبرستان وجود میں آیا۔ تاہم بعد میںیہاں اولیا ئے کرام اور بزرگان دین کی تدفین کی گئی۔مورخین کے مطابق بادشاہی سڑک جو کہ ہا کڑو در یا کے جنوب میں وا قع ہے یہاں ایک بندرگاہ کے آثاربھی موجود ہیں جہاں قدیم دور میں بحری جہاز اور کشتیاںلنگر انداز ہو تی تھیں۔ اس بند ر گاہ کے قریب پتلی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ایک مسجدکے آثار بھی ملے ہیں۔

تا ریخ معصومی میں ’’لنجواری ‘‘کے قلعہ کا بھی تذکرہ ملتا ہے جو کہ بکھر سے ما تھیلو کی طرف 18کو س کے فاصلے پر واقع تھا۔مذکورہ قبرستان کے بالکل نزدیک گا ئوں’’ رو جو مہیسر‘‘ میں400 سالہ قدیمی مسجد بھی واقع ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس مسجد کی تعمیر درگاہ سو ئی شریف کے بزرگوں کے حکم پر ہو ئی تھی۔

چیچڑو گاؤں کے باسیوں کا کہنا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر صرف حفاظ کرام کے ہاتھوں سے عمل میں آئی جنہوں نے با وضو حالت میںقرآن شریف کی آیات مبارکہ کی تلاوت کرتے ہوئے اس کارخیر میںحصہ لیا تھا ۔ یہ مسجد اپنی قدیم حالت میں ابھی مو جود ہے ۔قدیم آثار کے محکمے او ر حکومت کی جانب سے چیچڑو شہر کی جانب سے ہمیشہ عدم توجہی برتی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے اس تاریخی گاؤں کے آثارمعدوم ہورہے ہیں۔ دریائے باکڑا کے کنارے پر واقع ماضی کا یہ حسین گاؤں اب قدیم قبرستان و کھنڈرات کی صورت میں باقی رہ گیاہے۔