آئی پی ایچ، اورنج ٹرین اور کرونا وائرس

February 23, 2020

گزشتہ ہفتے انسٹیٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ (آئی پی ایچ حکومت پنجاب) کے زیر اہتمام صحتمند غذا کے حوالے سے ایک بڑا معلوماتی سیمینار منعقد ہوا جس میں ملک کے معروف ماہرین نے انسان کے لئے بہترین غذا مرغی اور انڈے کو قرار دیا۔ اس کے علاوہ پھل، سبزیاں اور دالوں کا بھی ذکر ہوا۔

آئی پی ایچ کے بورڈ آف گورنرز کے سربراہ سابق گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول تھے۔ خالد مقبول جب پنجاب کے گورنر تھے تو تعلیم اور صحت کے شعبے میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے، انہوں نے بے شمار یونیورسٹیوں میں جاکر تعلیم کی اہمیت اور جدید ریسرچ پر ہمیشہ بات کی۔

انہوں نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عوام کی خصوصاً بچوں کی صحت بہتر بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ وزیراعظم نے بھی حال ہی میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمارے بچوں کو صحت کے حوالےسے بےشمار خطرات کا سامنا ہے، ہمیں ان کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی بنانی چاہئے۔

ہمیں سابق گورنر کی اس بات سے پوری طرح اتفاق ہے کہ آج نئی نسل رات کے تین بجے تک نیٹ، لیپ ٹاپ پر بیٹھی رہتی اور سڑکوں پر گھومتی رہتی ہے۔ صبح دیر سے اٹھتی ہے، کاروباری لوگ بارہ بجے مارکیٹیں کھولتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ صحت نہیں اور کاروبار نہیں۔ ارے بابا! رات کو جلدی سو جائو، صبح جلدی اٹھ جائو، امریکہ اور یورپ میں تمام مارکیٹیں رات آٹھ بجے تک بند ہو جاتی ہیں۔ اکثر ممالک میں لوگ رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں لوگ رات دو بجے تک فوڈ اسٹریٹ اور فاسٹ فوڈ کی دکانوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، اب تو فاسٹ فوڈ والوں نے رات گئے تک کی خصوصی ڈیل شروع کر رکھی ہیں اور 24گھنٹے فاسٹ فوڈ کے ریسٹورنٹس بھی کھلے رہتے ہیں، صحت کہاں سے ٹھیک ہو گی؟ ایلیٹ کلاس کے بعض لوگ اپنی عادتوں اور شراب نوشی کی وجہ سے بیمار ہو رہے ہیں۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شراب نوشی میں 13فیصد اضافہ ہوا ہے ملک میں شراب بنانے والی فیکٹری کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ متوسط اور غریب طبقہ اپنے محدود وسائل کی وجہ سے ناقص غذا کھانے پر مجبور ہے، فوڈ اتھارٹی والوں کو چاہئے کہ وہ ناقص غذا بنانے والے اداروں کے خلاف اپنا ایکشن تیز کریں۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے کافی کام کر رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ چھوٹے شہروں اور دیہات میں غذا کو چیک کرنے کے حوالے سے بڑی تیزی سے کام کیا جائے۔ آئی پی ایچ میں عوام کی صحت کے حوالے سے یہ سیمینار منعقد کرانے کا کریڈٹ اس کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر زرفشاں طاہر اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے، یہ ادارہ عوام کو آگاہ کرنے اور شعور فراہم کرنے میں کافی سرگرم ہے۔

گزشہ ہفتے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اورنج ٹرین پر بھاری سبسڈی دیں یا اسپتال و اسکول چلائیں۔ انہوں نے کہا کہ اورنج ٹرین کا قرضہ واپس کرنے کیلئے اربوں روپے دینا پڑیں گے۔ اگر ٹرین کا کرایہ 60روپے بھی رکھیں تو صرف ٹرین کو چلانے کیلئے 10ارب روپے سالانہ سبسڈی دینا پڑے گی۔ سابق حکومت نے اورنج ٹرین جیسا سفید ہاتھی کا منصوبہ شروع کرکے ملک و قوم کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے، ہم نے اس زمانے میں بھی سابقہ حکومت کے اس منصوبے کی مخالفت میں کئی کالم لکھے تھے کہ اورنج ٹرین پر آپ کو اربوں روپے کی سبسڈی کرایہ میں دینا پڑے گی جبکہ اس اورنج ٹرین کی مینٹی-ننس اور دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ سابق حکومت کے اس ناکام منصوبے کو فی الفور بند کر دے اور مزید رقم اس پر نہ خرچ کرے بلکہ لاہور میں جو ریلوے ٹریک ہے جو پورے لاہور کا احاطہ کرتا ہے، پر توجہ دے۔ اس پر صرف دس، بارہ ارب روپے لگا کر درست کرکے اس کو قابل عمل بنا یاجا سکتا ہے۔ انگریزوں کے دور میں جو ریلوے ٹریک بنایا گیا تھا وہ شاہدرہ اسٹیشن سے رائیونڈ تک اور جلو موڑ تک پورے شہر میں موجود تھا۔ بہرحال اب اورنج ٹرین کے کرائے کا معاملہ اسمبلی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ کرایہ کم کرنا چاہتے ہیں جبکہ بعض ممبرانِ اسمبلی کو تحفظات ہیں کہ بعض علاقوں کو ترقیاتی فنڈز کم مل رہے ہیں اور ہم اورنج ٹرین چلانا چاہتے ہیں۔

چین میں کرونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں اور متاثرین کا سلسلہ تاحال جاری ہے، ہمارے ملک میں ہوائی اڈوں پر جو ڈاکٹرز اور کسٹم کے حکام موجود ہیں، ان میں سے بعض دوسرے ممالک سے آنے والے افراد کو پریشان کر رہے ہیں اور اس حوالے سے کئی وڈیوز وائرل ہو چکی ہیں۔ یہ ڈاکٹرز مسافروں سے پاسپورٹ لے لیتے ہیں اور جب تک وہ رشوت نہیں دیتے، ان کے پاسپورٹ واپس نہیں کیے جاتے۔ وہ ہر مسافر کو ڈراتے ہیں کہ اگر ہم نے اس شک کا اظہار بھی کر دیا کہ تمہیں کرونا وائرس ہے تو تم ایئرپورٹ سے باہر نہیں جا سکو گے۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے، حکومت کو اس حوالے سے سخت ایکشن لینا چاہئے، ایئر پورٹس پر ایسے آلات لگا کر اور بخار چیک کرکے ایسے مسافروں کی شناخت کی جا سکتی ہے۔

لاہور کے ایک ایس ایس پی کی پراسرار گمشدگی کا ذکر ہر ٹی وی چینل اور اخبارات میں ہو رہا ہے۔ اس واقعہ کی اصل صورتحال تو شاید کبھی بھی سامنے نہ آسکے البتہ حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض بیورو کریٹس اور پولیس آفیسرز نے سی ایس ایس کرانے والی اکیڈیمیاں قائم کر رکھی ہیں یا ان کےحصہ دار ہیں۔ ان اکیڈیمیوں میں کیا کچھ ہوتا ہے اس حوالے سے نیب اور ایف آئی اے تحقیقات کرے تو کئی انکشافات ہوں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک سرکاری افسر کیسے اس طرح کی اکیڈیمیاں چلا سکتا ہے؟ گمشدہ ہونے والے یا خود ہی غائب ہونے والے ایس ایس پی بھی ایک سی ایس ایس اکیڈیمی کے حصہ دار ہیں، اس پر مزید بات آئندہ کریں گے۔