آپریشن رَدُّ الفساد کے تین سال

February 24, 2020

تین سال پہلے ملک میں امن و امان کی صورت حال جس قدر ابتر تھی، بم دھماکے اور خود کش حملے جس طرح روز کا معمول بنے ہوئے تھے، عبادت گاہیں، عوامی مراکز، تعلیمی ادارے، بازار، ہوائی اڈے، حتیٰ کہ فوجی تنصیبات تک ہلاکت خیز کارروائیوں سے محفوظ نہ تھیں، قوم کے حافظے سے ان مناظر کا محو ہو جانا ممکن نہیں۔ تاہم موجودہ آرمی چیف نے منصب سنبھالنے کے فوراً بعد اُس وقت کی وفاقی حکومت کی مشاورت سے ملک کو بدامنی سے نجات دلانے کیلئے فیصلہ کن کارروائی کا عزم کیا اور یوں آپریشن رَدُّالفساد کا آغاز ہوا۔ پوری قوم نے نفاذ قانون کے ذمہ دار تمام اداروں کی شرکت سے شروع ہونے والی اس کارروائی کی مکمل حمایت کی اور الحمدللہ ملک کے محافظوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر، بھاری قربانیاں دے کر اور تین سال میں انٹلی جنس کی بنیاد پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ آپریشن کرکے ملک کو دہشت گردی کے چنگل نکال لیا۔ اس مدت میں دہشت گردی کے چار سو منصوبے ناکام بنائے گئے، 344دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں کے ذریعے سزائے موت اور 301کو دیگر سزائیں دی گئیں، پاک، افغان سرحد پر 2611کلومیٹر میں سے 1450کلومیٹر پر باڑھ کی تنصیب اور باڑھ کے ساتھ 843حفاظتی قَلعوں میں سے 343کی تعمیر مکمل کی گئی جبکہ 161زیر تعمیر ہیں۔ افواج پاکستان اور دیگر متعلقہ اداروں کی اس شاندار کارکردگی پر جسے پوری عالمی برادری قابل تقلید مثال تسلیم کرتی ہے، پاکستانی عوام کا سر فخر سے بلند ہے، شہیدوں اور غازیوں کیلئے ان کے دل تشکر کے جذبات سے لبریز ہیں جبکہ آپریشن ردالفساد کے تین سال مکمل ہونے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان حقائق کی بالکل درست ترجمانی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتائج خطے میں امن کی صورت میں نکلیں گے۔ قومی خود مختاری اور ملکی سلامتی کی حفاظت کی خاطر ہر چیلنج سے نمٹنے کیلئے افواج پاکستان کے چوکس و بیدار ہونے کی جو یقین دہانی آرمی چیف نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کرائی ہے، وہ پوری قوم کیلئے باعث اطمینان ہے۔ موجودہ حکومت یقیناً خوش نصیب ہے کہ اسے پچھلے ڈیڑھ دو عشروں کی سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں ایسا پاکستان ملا ہے جسے بدامنی سے اس طرح پاک کیا جا چکا ہے کہ برسوں بعد آج یہاں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو گئی ہے، وہ ممالک جنہوں نے اپنے شہریوں کو سیکورٹی خدشات کے پیش نظر یہاں کا سفر کرنے سے روک رکھا تھا، ان میں سے بیشتر اب یہ پابندی ختم کر چکے ہیں اور یہ ملک اب ٹیررازم سے نکل کر ٹورازم کے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ دہشت گردی سے سیاحت تک کا یہ سفر وطن عزیز کیلئے خوش آئند امکانات کے لامحدود راستے کھول سکتا ہے۔ اس مثبت پیشرفت کے سبب آرمی چیف کی یہ توقع بالکل بجا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے سے پاکستان اور خطے میں امن و استحکام آئے گا۔ اپنے بیان میں انہوں نے انسدادِ دہشت گردی کی دو دہائیوں کی کامیابیوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے، جسے پورا کرنا بنیادی طور پر تمام ریاستی اداروں کی مکمل حمایت یافتہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ خوش قسمتی سے آج افغانستان میں بھی پائیدار امن کے امکانات روشن ہیں، طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ اسی ہفتے متوقع ہے، جس کے بعد امریکی افواج کی واپسی عمل میں آئے گی اور برادر ملک میں ایک مستحکم سیاسی نظام کے قیام کی راہ ہموار ہوگی۔ خطے میں پائیدار امن و استحکام کے ان روشن امکانات سے خاطر خواہ استفادہ کرنا اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانا موجودہ حکمرانوں کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ اس مقصد کیلئے قومی سطح پر موجودہ افتراق وا نتشار کا خاتمہ اور اتحاد و یگانگت کا فروغ ناگزیر ہے، اس کیلئے مؤثر اقدامات میں تاخیر قومی مفاد کے منافی ہوگی۔