حکمرانی کے غروب ہونے کا ایک منظر

March 16, 2013

بدھ کی شام طیارہ اسلام آباد کے ائرپورٹ پر اترا تو موسم ابر آلود تھا۔ بوندا باندی ہو رہی تھی۔ ائرپورٹ سے مجھے سیدھے مری جانا تھا۔ دھواں دھواں موسم میں جانے، پہچانے راستے کسی حد تک ایک افسانوی فضا میں لپٹے محسوس ہو رہے تھے۔ بارش برسنے لگی۔ پرپیچ بلندیوں پر دھند نے کار کی رفتار کو سست کر دیا ۔ اس عالم میں مجھے لگا کہ میں کراچی سے بہت دور کسی اور دنیا میں ہوں، اپنے ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر میں نے ایک لمبی سانس لی ۔ کئی دنوں کے جذباتی ہیجان کے بعد یہ جیسے میرے لئے ایک عارضی پناہ گا ہ تھی۔ تب میں نے ٹیلی ویژن کا ریموٹ تھاما اور پلک جھپکتے میں ایک بے رحم دنیا سے رابطہ بحال ہو گیا۔ ”بریکنگ نیوز“ کے شعلے بلند ہوئے اور میں نے جانا کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمٰن کو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ ایک بے بہا شخصیت جو اپنے کام کی وجہ سے کراچی کی محسن تھی اس طرح بربریت کا نشانہ بن گئی۔ میں لرز گیا۔ ایک صحافی کی حیثیت سے کراچی کے سارے خونی زمانوں کی گواہی دیتے رہنے کے باوجود یہ اندوہناک واقعہ میرے لئے ناقابل یقین تھا۔ ایک نرم دل اور محروم بستیوں کو سنوارنے کے ہنر سے واقف ایک خاتون پر ایسا حملہ …میرے خدا، یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ پروین رحمن سے واقفیت اور ان کی سماجی عظمت کے اعتراف نے اس سانحے کو بالکل ایک ذاتی نوعیت کا دکھ بنا دیا۔ میں نے اپنی بیوی صادقہ کو فون کیا ۔ چند دوستوں سے اپنا دکھ بانٹنے کی کوشش کی ۔تقریباً ساری رات تیز بارش کی آواز سنی اور اپنے شہر اور اپنے ملک کی بدنصیبی کو سمجھ نہ پانے کی الجھن میں گرفتار رہا۔ اس کے سوا اب کیا چارہ ہے کہ ہم اس دکھ کو بھی برداشت کریں۔ اسی طرح جیسے ہم ایک کے بعد ایک لگائے جانے والے زخم برداشت کرتے رہے ہیں۔ لیکن پروین رحمن کے قتل نے ایک پیغام یہ دیا ہے کہ اب شاید ان لوگوں کی باری آ چکی ہے جو معاشرے کو بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔
اور جب ان لوگوں کی بات کرتا ہوں جو اس ملک کو زندہ اور آزاد ترقی پذیر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں اپنا کام بھی کر رہے ہیں تو میں اس فہرست میں ان حکمرانوں کو شامل نہیں کروں گا جو اس اختتامی ہفتہ اپنی مدت پوری کر رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ منزل سر کی گئی ہے اس لئے صرف اقتدار میں رہنے کوایک حیرت انگیز کارنامہ سمجھا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مسلسل جمہوری ملکوں میں یہ محض ضابطے کی ایک کارروائی ہے بلکہ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ مسلسل جمہوری ملکوں میں شاید اتنی شرمناک حکمرانی قبول نہ کی جائے اور کسی جمہوری طریقے سے یہ بوجھ اتار پھینکا جائے۔ اگر ہم حکمرانوں کی اس کامیابی پر تالیاں بجانے پر راضی ہو بھی جائیں، تب بھی یہ پوچھنا تو جائز ہے کہ حضور، اس نصف دہائی میں آپ کی کارکردگی کیا رہی ہے ؟ ہاں، خود کو مبارک باد دینے کی دیدہ دلیری کا مظاہرہ اپنی جگہ خود ایک کارنامہ ہے۔ اس کی داد دینے کی مجھ میں سکت اس لئے نہیں ہے کہ جب یہ حکومت باہر جانے کے دروازے تک پہنچی تو پروین رحمٰن جیسی شخصیت کا جنازہ اٹھایا جا رہا تھا ۔ اس کے علاوہ بھی دوسری کئی شہادتیں موجود ہیں جو اس حکومت کی ناکامی بلکہ پسپائی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ بنیادی المیہ یہ ہے کہ پورا معاشرہ کچھ اسی طرح منہدم ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس طرح عباس ٹاؤن کی چند عمارتیں بم دھماکے سے ڈ ھ گئی ہیں۔ اس معاشرے کے حیات آفریں تصورات پر اس قسم کے حملے کئے جا رہے ہیں جیسے حملے لاہور کے بادامی باغ میں واقع، جوزف کالونی کے عیسائی مکینوں کے خالی گھروں پر کئے گئے۔ حملہ آوروں کو ہم جانتے ہیں۔ وہ دہشت گر د بھی ہیں، انتہا پسند بھی، ان کے تاریک ذہنوں میں تعصب اور نفرت کے بھوت ناچ رہے ہیں ہمارے رخصت ہوتے ہوئے حکمراں بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرنے سے کتراتے رہے اور پروین رحمن جیسی غیر مسلح اور علم و تہذیب کی علمبردار ہستیوں کو قربان کر نے کی شرمندگی برداشت کرتے رہے۔ پروین رحمن کوئی حکمرانوں کے اپنے قبیلے کی فرد نہیں تھیں۔ سلمان تاثیر تو تھے۔ ملالہ یوسف زئی نے ”میدان کارزار“ میں زخمی ہوجانے کے باوجود جس پرچم کوتھامے رکھا اس کو مزید بلند کرنے کی بھی کوئی جرأت مندانہ کوشش نہیں کی گئی۔ اگر کوئی مجاہدانہ منصوبہ تھا ان حکمرانوں کے لئے تو محض یہ کہ اپنی مدت پوری کرنا ہے اور یہ بھی کہ اسی عرصے میں خود اپنی خدمت بھی کرتے رہنا ہے۔
مری میں میرا قیام صرف ایک رات اور ایک دن کا تھا ۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ”روزن “ہے جس نے ”سماجی انصاف“ کے موضوع پر میڈیا کے منتخب نمائندوں کے لئے ایک تربیتی کورس ترتیب دیا ہے۔ اس کے ایک سیشن میں میری شمولیت بھی تھی۔ اسلام آباد کے تو ایک یا دو دن کے چکر لگتے رہتے ہیں۔ پہاڑوں کی ہوا میں سانس لینے کا یہ موقع بھی کراچی کی گھٹن سے کچھ دیر کے لئے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک بہانہ تھا۔ لیکن کراچی کب پیچھا چھوڑتا ہے اس کے عذاب آپ کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ سو یہی ہوا۔ میں خود کو کراچی کا نوحہ خواں سمجھتا ہوں۔مجھ سے یہ سوال اس طرح کیا گیا کہ جیسے واقعی میرے پاس اس کا جواب ہو گا کہ پروین رحمن کو کس نے قتل کیا اور کیوں… اگر مجرموں کو پکڑنے کی صلاحیت یا روایت ہوتی تو اس سوال کا جواب ہمیں مل جاتا ۔ سردست تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والی کالی قوتوں نے انہیں قتل کر دیا۔ دھمکیاں انہیں ملتی رہتی تھیں۔ یہ ان کے کام کا ایک حصہ تھا کہ وہ کراچی کے مضافات میں منہدم کی جانے والی قدیم بستیوں اور نئی تعمیرات کا حساب رکھیں۔ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ جس کی وہ انتظامی سربراہ تھیں اخترحمید خان نے قائم کیا تھا جو بلاشبہ پاکستان کے مایہ ناز سپوتوں میں سے ایک تھے ان کی شہرت کا آغاز سابقہ مشرقی پاکستان میں ”کومیلا پائلٹ پروجیکٹ“ سے ہوا کہ جو امداد باہمی کی ایک ایجادانہ مہم تھی۔ بنگلہ دیش میں اب بھی انہیں والہانہ انداز میں یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا ذکر کتابوں میں ہے اور ان کی تصویریں کیلنڈروں کی زینت بنتی ہیں۔ تو کیا پاکستان میں ہم ان کے ورثے کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے ؟ کیا سماجی ترقی کے خواب وحشی درندوں کی دسترس میں ہیں؟ ہمارے ملک میں کئی لوگ غیر سرکاری تنظیموں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،لیکن اختر حمید خان جس قسم کی تحریک اور تنظیم کے داعی تھے،اس کا علم سب کو نہیں۔ انہوں نے اور ان کے پیروکاروں نے بڑی تنخواہوں اور عیش و عشرت کی زندگی کو ہمیشہ حقارت سے ٹھکرا یا اور عوام کی ترقی اور خود اعتمادی کے لئے کی جانے والی کاوشوں کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھا ۔ پروین رحمن کا مشن بھی یہی تھا۔ اختر حمید خان کا ذکر ہوا ہے تو ان کی ایک بات میں دہرا دوں، وہ کہتے تھے کہ ہمارے سرکاری ملازم بس دو کام چھوڑ دیں تو کافی فرق پڑ سکتا ہے۔ کون سے دو کام ؟چوری اور کام چوری۔ بہرحال، ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی ہیں جن پر تنقید جائز ہے لیکن ایسے بے شمار افراد بھی ہمارے معاشرے میں سرگرم ہیں جو پوری لگن اور دیانت داری کے ساتھ محروم طبقوں کی باوقار ترقی کے لئے کوشاں ہیں اور رجعت پسندوں کی شدید مخالفت کے باوجود اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہی لوگ اس دیمک زدہ نظام کو تباہی سے بچا رہے ہیں۔ پروین رحمن پر کئے جانے والے حملے کی معنویت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ معاشرے کی تعمیر نو کے چیلنج کو قبول کریں اور اختر حمید خان کے فلسفے پر غور کریں۔ پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ وہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا سنجیدگی سے مشاہدہ کریں۔ آنے والے دنوں میں جس انتخابی مہم کا آغاز ہونے والا ہے اس میں بنیادی سوالات اٹھائیں اور ایک نئے پاکستان کی تشکیل کے ایک تفصیلی منصوبے کا خاکہ عوام کے سامنے رکھیں۔
پاکستان میں اس وقت کیا ہو رہا ہے؟ اتوار کے دن میں نے کوئی چار گھنٹے کراچی میں عباس ٹاؤن کے متاثرہ علاقے میں گزارے۔ سول سوسائٹی کے کارکن وہاں امن کی ایک یادداشت پر دستخط کرنے جمع ہوئے تھے اس تباہی کو دیکھا جس کا تصور بھی مشکل ہے۔ ان پسماندگان سے ملے جن کے گھر اور زندگیاں اجڑ گئیں۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے عذاب کو سمجھنے کی کوشش کی۔مثلاً ملک کے سرکردہ اور سب سے سینئر ماہر نفسیات ڈاکٹر ہارون سے یہ گفتگو بھی ہو رہی ہے کہ اگر پورا معاشرہ نفسیاتی مریض بن جائے تو اس کا علاج کیسے ہو اور کون کرے۔ عباس ٹاؤن تو کئی علامتوں میں سے محض ایک علامت ہے۔ اس کے بعد لاہور کے بادامی باغ میں عیسائی اقلیت کے ساتھ ایک بپھرے ہوئے ہجوم نے جو سلوک کیا، اس کی ایک الگ کہانی ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ برسوں میں ہونے والے کئی واقعات بھی یاد آئے کہ جن کے بعد شرپسندوں اور قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ چلتے چلتے میں جمعرات کو شائع ہونے والی اس خبر کا ذکر کر دوں کہ کرم ایجنسی میں ایک فوجی کو سر عام سنگسار کر دیا گیا ۔اس پر ایک مقامی خاتون کے ساتھ تعلقات رکھنے کا الزام تھا۔ اس بہیمانہ قتل کا فیصلہ ایک قبائلی جرگے نے کیا تھا۔ یہ سوچ کر جسم میں ایک تھرتھری سی دوڑ جاتی ہے کہ میں بھی اس ملک کا شہری ہوں جس کے کئی گوشوں میں قرون وسطیٰ کی وحشتیں راج کرتی ہیں۔کیا اکیسویں صدی میں ہمارا داخلہ ممنوع ہے؟