تحریک ِ آزادیٔ صحافت۔ چند یادیں

February 27, 2020

میں اگر یہ دعویٰ کروں تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ اعزاز صرف پاکستان کو جاتا ہے کہ اس ملک میں آزادیٔ صحافت کی اتنی تحریکیں چلیں جن میں نہ فقط سینکڑوں صحافی اور اخباری کارکنوں نے رضا کارانہ طور پر گرفتاریاں دیں اور جیل کاٹی بلکہ 4صحافیوں کو کوڑے بھی لگائے گئے۔ ایک بار لاہور میں کچھ صحافیوں اور اخباری کارکنوں کو گرفتار کر کے فوجی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں چار صحافیوں کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی اور کئی صحافیوں جن میں ڈان کے بیورو چیف اور پاکستان کے ممتاز صحافی نثار عثمانی جو اُس وقت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر بھی تھے، کو بھی ایک سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ نثار عثمانی کو سزا سنانے کے بعد ملتان جیل بھیجا گیا‘ جیل میں دوسرے دن جیل سپرنٹنڈنٹ عثمانی صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ عثمانی صاحب آپ ہمارے لئے انتہائی قابلِ احترام ہیں‘ آپ کو یہاں کوئی تکلیف تو نہیں؟ تو جواب میں عثمانی صاحب نے کہا کہ مجھے ایک سال مشقت کے ساتھ جیل کی سزا سنائی گئی ہے تو میرے ساتھ بھی وہی سلوک کیوں نہیں کیا جارہا جو دوسرے بامشقت قید کاٹنے والے قیدیوں سے کیا جاتا ہے۔ سپرنٹنڈنٹ نے بڑے احترام سے کہا کہ عثمانی صاحب کون سا سلوک‘ عثمانی صاحب نے کہا کہ پاکستان کے قانون کے مطابق جس کو بامشقت جیل کی سزا سنائی جاتی ہے اسے جیل میں مخصوص ڈریس بھی پہنایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے جیل میں مشقت بھی لی جاتی ہے۔ جواب میں سپرنٹنڈنٹ جیل نے جھک کر عرض کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے لئے انتہائی قابلِ احترام ہیں‘ ہم آپ سے یہ سلوک کیسے کر سکتے ہیں۔ اس پر عثمانی صاحب غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ ہم صحافی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ کسی طور پر بھی کسی سے امتیازی سلوک کیا جائے‘ ہم اس وقت قیدی ہیں اور ہمیں سزائے بامشقت سنائی گئی ہے لہٰذا اگر میرے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا گیا تو میں یہ ساری بات لکھ کر بااختیار لوگوں کو بھیج رہا ہوں۔ یہ سن کر سپرنٹنڈنٹ جیل گھبرا گئے اور فوری طور پر کسی قیدی کاڈریس منگوا کر ان کے حوالے کیا چونکہ عثمانی صاحب قد آور تھے لہٰذا ان کپڑوں کا پاجامہ ان کے ٹخنے تک آیا۔ اس کے باوجود عثمانی صاحب جب تک ملتان جیل میں رہے یہ ڈریس پہنتے رہے۔ عثمانی صاحب کے دبائو کے تحت جیل حکام نے ان کو رسہ بُننے والوں کے حوالے کردیا جہاں وہ رسہ بننا سیکھ گئے۔ لاہور میں ایک یومِ احتجاج کے موقع پر جس میں‘ میں بھی موجود تھا‘ عثمانی صاحب نے اپنے خطاب کے دوران جنرل ضیاء الحق اور ڈان کی انتظامیہ کو مخاطب ہوکر کہا کہ مجھے بےروزگار کرنے کی دھمکی مت دو‘ اب میں جیل سے رسہ بُننا سیکھ آیا ہوں اگر مجھے ملازمت سے نکالا گیا تو میں لاہور کے مال روڈ پر بیٹھ کر رسہ بُن کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال لوں گا۔ مزید دو ایسی یادیں دہرانے سے پہلے میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ فاضل راہو صاحب جن کا ذکر میں گزشتہ دو کالموں میں کرچکا ہوں، نے تحریک میں اپنے بڑے بیٹے صدیق راہو جو موجودہ صوبائی وزیر اسماعیل راہو کے بڑے بھائی تھے، سے بھی گرفتاری دلوائی۔ شاید حکمرانوں کو پتا چل گیا تھا کہ صدیق راہو فاضل راہو کا بڑا بیٹا ہے اور ان کو یہ بھی پتا تھا کہ فاضل راہو‘ نہ فقط صحافیوں کی اس تحریک بلکہ ہر عوامی تحریک میں بھرپور کردارا دا کرتے رہے ہیں‘ اس لئے حکمرانوں کی ہدایات کے تحت صدیق راہو پر نہ فقط جیل میں سختی کی گئی بلکہ ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق انہیں زمین میں گڑھا کھود کر گردن تک اس میں بند بھی کردیا گیا‘ ان پر اتنی سختیاں کی گئیں کہ وہ شدید علیل ہوکر انتقال کرگئے۔ جب صدیق راہو کا انتقال ہوا اس وقت بھی فاضل راہو جیل میں تھے۔ انہیں بیٹے کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کیلئے لایا گیا۔ وہاں فاضل راہو سارے کارکنوں کو تلقین کرتے رہے کہ بھاگنا نہیں ہے ظلم کا مقابلہ کرنا ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ مجھے خیرپور جیل سے بھیجی گئی منہاج برنا کی ایک چٹ پہنچی تھی جس میں اعلان کیا گیا کہ وہ عید کے بعد بھوک ہڑتال شروع کررہے ہیں اور دیگر جیلوں میں قید صحافی بھی رضا کارانہ طور پر اس قسم کی بھوک ہڑتال کریں تو بہت اچھا ہوگا۔ اس وقت حیدرآباد سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ میرے پرانے دوست تھے‘ میں فوری طور پر ان کے آفس گیا۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے کہا کہ چند دنوں کے بعد عید آرہی ہے تو عید کے دن صحافت کی تحریک میں قید ہونے والے ہم سب ساتھیوں کو کسی ایک سیل میں عید کی نماز کے لئے کیوں نہیں لاتے؟ وہ بات مان گئے۔ عید کے دن سب سے پہلے خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ یہ خطبہ میں نے پڑھا‘ خطبہ کچھ اور نہیں میں نے برنا صاحب کی چٹ پڑھ کر سنائی اور اعلان کیا کہ فلاں دن میں یہاں بھوک ہڑتال پر بیٹھوں گا۔ میرا یہ اعلان سن کر ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک پروف ریڈر اور حیدرآباد کے ایک مزدور رہنما جنہوں نے ہماری تحریک میں گرفتاری پیش کی تھی، نے بھی میرے ساتھ بھوک ہڑتال پر جانے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد کئی اور ساتھیوں نے بھی ایک‘ ایک دن کے بعد گرفتاریاں دینے والی فہرست میں اپنے نام لکھوائے۔ جب وہ دن آیا تو مجھ سمیت ملتان کے پروف ریڈر اور حیدرآباد کے مزدور رہنما نے اپنے سیل میں بھوک ہڑتال شروع کردی اور اس فیصلے سے جیل انتظامیہ کو بھی آگاہ کردیا۔ جیل انتظامیہ کو جیسے ہی یہ اطلاع ملی تو ہم تینوں کو دوسرے قیدیوں سے الگ کرکے ایک اور سیل میں بند کردیا گیا جب ہمیں یہ پتا چلا کہ یہ وہ سیل ہے جہاں حیدرآباد سازش کیس کے قیدی اور ممتاز بلوچ رہنما نواب خیر بخش مری کو قید کیا گیا تھا تو ہمارے سر فخر سے بلند ہو گئے۔