پھولوں میں ڈَھلی ہوئی یہ لڑکی....

March 08, 2020

تحریر: نرجس ملک

ماڈل :فلیا میمن

ملبوسات:ہائی فیشن ڈیزائنز (کلفٹن، کراچی)

آرایش : روز بیوٹی پارلر

عکّاسی: ایس ایم ریاض

لے آؤٹ: نوید رشید

اپنی کوکھ سے جنمی بیٹیاں کب مائوں سے بھی اونچا قد نکال لیتی ہیں۔ بِن کہے ہر بات سمجھنے لگتی، پشت پر (کم زور ہی سی سہی) ڈھال بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ مائوں کے ہر دُکھ سُکھ کی ساتھی، پکّی سہیلیاں بن جاتی ہیں، پتا ہی نہیںچلتا۔ آنگن میںاِدھر سے اُدھر پُھدکتی، اٹھلاتی، چہکتی مہکتی ننّھی سی پَری اچانک ہی آئینے کے مقابل آجاتی ہے۔ کل تک جسے میٹھی لوریاں گا گا سنائیں، گودی میںپیار سے تھپک تھپک سُلایا۔ رنگ برنگے فراکس، سوئیٹرز، ٹوپیاں پہنائیں، بالوں کی چھوٹی چھوٹی پونیاں بنائیں، کلپس لگائے، سینڈل پہننا سِکھائے، ننّھی ننّھی ہتھیلیوں میںمنہدی رچائی، نازک کلائیوں میںبَھر بَھر چوڑیاں پہنائیں۔ گُڑیوں کے کپڑے سی کے دیئے، بیاہ رچائے۔ مٹّی کے برتنوں میںجھوٹ موٹ کا کھانا بنانا سکھایا۔ روٹی بناتے، ننّھا سا پیڑا تھما کے بیلن سے بیلنا بتایا۔ روتی کو بہلایا، ہنستا دیکھ کر دل سے دُعا دی، ’’اے اللہ! اِسے سدا یوں ہی ہنستی بستی رکھنا۔‘‘ بہن بھائیوں، سہیلیوں سے صلح صفائیاں کروائیں، معصوم فرمایشیں، خواہشیں پوری کیں۔ اور پھر… اُٹھنے بیٹھنے، چلنے پِھرنے، لوگوں سے بات کرنے سے لے کر دوپٹا سلیقے سے اوڑھنے، اچھی طرح بننےسنورنےکے طور طریقے بتانے تک مستقلاً نصیحتیں، ہدایتیں، روک ٹوک جاری ہی رہی۔

یہی بیٹیاں، جب مائوں کی ’’بیسٹ فرینڈز‘‘ بن جاتی ہیں، تو پھر اُنہیںمشورے دینے، سمجھانے بجھانے لگتی ہیں۔ اور اکثر اوقات تو اُن کی دانائی سے بھرپور باتیں سُن کر مائیں بھی حیران رہ جاتی ہیں کہ کیا خود ہم ہی نے، اپنی اِس ننّھی سی جان کو اتنی ’’دان پردھان‘‘ پروان چڑھایا ہے۔ وہ کسی انگریز مفکّر نے کہا تھا ناں کہ ’’مَیں اپنی ٹین ایج بیٹی سے ہر روز ایک نئی اور بہت دانش مندانہ بات سیکھتا ہوں۔‘‘ تو کبھی کبھی اِن بیٹیوں سے زمانہ ساز، تجربہ کار مائیں بھی وہ کچھ سیکھتی ہیں، جو زمانے کی اونچ نیچ، ایک مدّت کے تجربے سے نہیںسیکھ پاتیں۔

بیٹیاں کتنی بڑی، کتنی لائق فائق، کیسی سوجھ بوجھ والی کیوں نہ ہوجائیں۔ مائوں کے لیے وہی ڈری سہمی، سہج سہج قدم اٹھانے والی، ننّھی مُنّی، کومل، نازک چڑیوں، فاختائوں ہی سی رہتی ہیں، جو کبھی سوتے میں ڈر جاتی تھیں، تو آکر ماں سے لپٹ کر ایسی گہری نیند سوتیں کہ پھر سر پر ڈھول پیٹو تو آنکھیںکھولیں۔ یہ چندر مُکھیاں اپنے گھروں کی ہوجاتی ہیں، مگر مائوں کی فِکریں اُن کا پیچھا نہیںچھوڑتیں۔ ذرا فون کی بیل بجی، تو کان کھڑےہوگئے۔ کال بیل پہ کسی نے آکر انگلی رکھی، دل میںجلترنگ بجنے لگے کہ ’’میری بیٹی مجھ سے اچانک ملنے آئی ہوگی۔‘‘ سچ تو یہ ہے کہ بڑی ’’بے اختیاری‘‘ کا رشتہ ہے یہ۔ مائوں کا اپنی بے خود ممتا پر کوئی اختیار ہے، نہ بیٹیوں کو مائوں سے اِک اِک پَل کی رُوداد بیان کیے بغیر چین پڑتا ہے۔

آج موقع تو ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کا ہے، مگر ہم ذکر لیے بیٹھے ہیں، ماں، بیٹی کے رشتے کا۔ تو اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ آج بزم میں نوعُمر لڑکیوں کے لیے ایک بہت ہی حسین و دل کش سے انتخاب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ کسی نہ کسی پیاری بیٹی کے کارہائے نمایاں کی کوئی نہ کوئی خبر آئے روز اخبارات کی زینت بن رہی ہے۔ دورِ حاضر کی بیٹیاں، باپوں کے شملے اونچے کر رہی ہیں، تو مائوں کے لیے بھی باعثِ صد فخر و امتیاز ہیں۔ کسی بھی یونی ورسٹی کے کانووکیشن کے مناظر دیکھ لیں، اودے، نیلے، پیلے پیراہنوں میں ملبوس یہ پریاں، قطار اندر قطار ایسے سر اٹھائے چلی جاتی ہیں کہ دیکھنے والوں کی نگاہیں عقیدت و احترام سے جُھکنے لگتی ہیں۔ تو آج، ہماری یہ بزم پھولوں میںڈھلی ایسی ہی لڑکیوں، بیٹیوں کے نام ہے۔ ذرا دیکھیے، عنّابی اورفون رنگ کےخُوب صُورت امتزاج میںایک بہت حسین کام دار، تقریباتی پہناوا ہے، تو گہرے نارنجی کے ساتھ فون کے کامبی نیشن میںبھی بہت دل کش سا انداز ہے۔ ٹِیل رنگ کے اسٹائلش ڈبل لیئر غرارہ ٹرائوزر کے ساتھ ستارہ ورک سے آراستہ لانگ شرٹ کا انتخاب جداگانہ ہے، تو ہلکے آسمانی رنگ کی کلی اسٹائل میکسی کے تو کیا ہی کہنے۔ ایسی اُجلی بزم دیکھ کے بے ارادہ ہی امجد صاحب کی وہ غزل یاد آگئی ؎ بھیڑ میں اِک اجنبی کا سامنا اچھا لگا.....سب سے چُھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا.....سُرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کِھلنے لگے.....کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا..... بات تو کچھ بھی نہیں تھی، لیکن اُس کا ایک دَم.....ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا.....چائے میںچینی ملانا اُس گھڑی بھایا بہت.....زیرِ لب وہ مُسکراتا شکریہ اچھا لگا.....دل میںکتنے عہد باندھے تھے بُھلانے کے اُسے.....وہ مِلا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا.....بے ارادہ لمس کی وہ سنسنی پیاری لگی.....کم توجّہ آنکھ کاوہ دیکھنااچھالگا.....نیم شب کی خاموشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل.....تیری یادوں کے جَلو میںگھومنا اچھا لگا.....اُس عدوئے جاں کو امجد مَیں بُرا کیسے کہوں.....جب بھی آیا سامنے، وہ بے وفا اچھا لگا۔

آپ کہیے، مائوں کی پکّی سہیلیوں کے لیے ہمارا یہ انتخاب آپ کو کیسا لگا.....؟؟