جمہوریت کی کامیابی کا کریڈٹ؟؟؟

March 18, 2013

پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی نے اپنی مدت پوری کرلی۔ اس کامیابی پرارکان اسمبلی کے علاوہ بھی بہت سے لوگ خوش تھے لیکن کچھ لوگوں نے اپنی خوشی کا اظہار ذرا مختلف انداز میں کیا۔ ایک صاحب نے کہا کہ16مارچ پاکستانی قوم کا یوم نجات ہے اس دن ہمیں ایک کرپٹ اور نااہل حکومت سے چھٹکارا مل گیا۔ کرپشن اور نااہلی کی شکایتوں میں کوئی شک نہیں،16مارچ کی رات وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی کٹی پھٹی تقریر ان کے انداز حکومت کا کھلم کھلا نمونہ تھی لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہمارے حکمران ہیں۔ پہلے ہمیں اپنے اندر چھپی ہوئی کرپشن اور نااہلی سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے پھر ہم یوم نجات بھی منالیں گے۔ برا نہ منائیے گا۔ پڑوسی ملک بھارت میں پہلے عام انتخابات 1951ء میں منعقد ہوئے اور بھارت کی پہلی” لوک سبھا“نے کامیابی کے ساتھ اپنی مدت پوری کی۔ پچھلے 65 سال میں بھارت میں15مرتبہ عام انتخابات منعقد ہوچکے ہیں ، کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ سیاسی بحران کے باعث کوئی اسمبلی اپنی مدت پوری نہ کرسکی لیکن ہر سیاسی بحران کا فیصلہ عام انتخابات کے ذریعہ نکالا گیا اور بھارت میں کبھی مارشل لاء نہ لگایا گیا۔ بھارت کی دو درجن سے زائد ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں لیکن جمہوری عمل کے تسلسل نے بھارت کے وفاق کو قائم رکھا۔ اب ذرا اپنے پیارے پاکستان کی طرف آئیے۔ ہم نے بھی 1951ء میں انتخابات کی کوشش کی لیکن صرف پنجاب اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کی اسمبلیوں کے انتخابات ہوسکے جن میں مسلم لیگی حکومتوں نے خوب دھاندلی کی۔ 1953ء میں سندھ اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور1954ء میں مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے ا نتخابات ہوئے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور اس کے اتحادیوں نے مسلم لیگ کا صفایا کردیا لہٰذا مرکز میں مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں نے عام انتخابات سے گریز کیا۔ بنگالیوں کی آبادی زیادہ تھی اور مسلم لیگ کو خطرہ تھا کہ اقتدار بنگالیوں کے پاس چلا جائے گا۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب گورنر جنرل سکندر مرزا اور وزیر اعظم حسین شہید سہروردی( دونوں بنگالی تھے) لیکن اس موقع پر جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کے ساتھ مل کر سازشیں کیں اور سہروردی صاحب نے 1957ء میں استعفیٰ دیدیا۔1958ء میں مارشل لاء لگ گیا۔ جنرل ایوب خان نے ایک اسمبلی تو بنائی لیکن یہ براہ راست انتخابات کے ذریعہ وجود میں نہ آئی تھی۔ اس اسمبلی کو کونسلرز منتخب کرتے تھے اور کونسلرز کو عام طور پر ضلعی انتظامیہ منتخب کراتی تھی۔ جنرل ایوب خان نے1965ء میں ایک صدارتی الیکشن کرایا جس میں80ہزار کونسلروں نے حصہ لیا۔ اس الیکشن میں دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی گئی۔ محترمہ فاطمہ جناح کراچی، لاہور اور پشاور سے ہار گئیں لیکن ڈھاکہ میں جیت گئیں جہاں شیخ مجیب الرحمن ان کی انتخابی مہم کے نگران تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی شکست کے بعد بنگالی پاکستان سے متنفر ہونے لگے۔ اس صورتحال میں قیام پاکستان کے23سال کے بعد1970 ء میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی۔ فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے سے گریز کیا۔300کے ایوان میں عوامی لیگ نے160اور پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں حاصل کیں۔ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 288نشستیں حاصل کیں۔ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو ایک نشست بھی نہ ملی البتہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی پی ڈی پی نے2،نیشنل عوامی پارٹی ولی خان گروپ نے ایک، جماعت اسلامی نے ایک اور کنونشن مسلم لیگ نے ایک نشست حاصل کی۔انتقال اقتدار میں تاخیر پر عوامی لیگ نے احتجاج کیا تو مارچ1971ء میں فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔ دسمبر 1971ء میں بھارت نے پاکستان حملہ کردیا اور16 دسمبر کو پاکستان ٹوٹ گیا۔
1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان سے منتخب ہونے والے ارکان پر مشتمل اسمبلی نے1973ء میں نئے آئین پر اتفاق کرلیا۔ سیاسی لحاظ سے یہ اسمبلی نامکمل تھی لیکن آئینی لحاظ سے اس اسمبلی کو مکمل کرکے 1977ء میں اس کی آئینی مدت سے کچھ ماہ قبل توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ افسوس کہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد پھر مارشل لاء آگیا۔ 1977ء سے 1988ء تک جنرل ضیاء کی حکومت تھی۔ موصوف نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرائے لیکن اپنی غیر جماعتی اسمبلی کو خود ہی توڑ بھی دیا۔1988ء کے عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلی 1990ء میں ٹوٹ گئی،1990ء کی اسمبلی1993ء میں ٹوٹی،1993ء کی اسمبلی1996میں ٹوٹی،1997ء کی اسمبلی کو1999ء کی فوجی بغاوت کھاگئی اور2002ء کی اسمبلی کو مشرف کی ایمرجنسی کھا گئی۔65سال میں بھارت میں15عام انتخابات ہوئے اور پاکستان میں8مرتبہ عام انتخابات ہوئے۔ہماری8اسمبلیوں میں سے2008ء کی اسمبلی نے پہلی دفعہ مدت پوری کی ہے۔ اس اسمبلی پر بہت سے الزامات لگائے جاتے ہیں لیکن اس اسمبلی نے این آر او کی کالک اپنے منہ پر سجانے سے گریز کیا۔ اس اسمبلی نے ڈرون حملوں کی مخالفت سمیت کئی قراردادیں بھی منظور کیں لیکن حکومت کسی قرارداد پر عملدرآمد نہ کراسکی۔
2008ء کی اسمبلی نے16مارچ2013ء کو اپنی مدت پوری کی۔ یہ وہ دن تھا جب 16مارچ 2009ء کو معزول جج بحال ہوئے۔ 2009ء میں المیے حالات پیدا ہوئے کہ اگر جنرل اشفاق پرویز کیانی چاہتے تو حکومت پر قبضہ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کیا۔ ایس ایم ظفر صاحب کی نئی کتاب میں معزول ججوں کی بحالی کا اصل قصہ بیان کردیا گیا ہے۔ ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کہانی اپنی زبانی میں جنرل کیانی کے ساتھ اپنی کئی ملاقاتوں کی تفصیل لکھی ہے جن کا مقصد قانونی معاملات میں رہنمائی ہوا کرتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ فروری2009ء میں پنجاب میں گورنر راج نافذ ہوچکا تھا۔15مارچ کو نواز شریف لاہور سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا فیصلہ کرچکے تھے۔ حکومت پنجاب نے آئین کی دفعہ245کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کے لئے فوج کو بلانے کا فیصلہ کرلیا۔ جنرل کیانی15مارچ کی صبح خود لاہور پہنچ گئے۔ انہوں نے کوشش کی کہ کوئی فوجی لانگ مارچ کے راستے میں نظر نہ آئے۔ جی پی او چوک پر ہنگامہ شروع ہوا تو پنجاب حکومت نے فوج کو طلب کیا، فوجی ا فسران نے صوبائی حکومت کو بتایا کہ ہم تیار ہیں لیکن آپ رینجرز کے ذریعہ ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں اگر ایسا نہ ہوا تو فوج آپ کے حکم کی تعمیل کریگی۔ اس دوران امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے نواز شریف کو لانگ مارچ میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی لیکن جب وہ نہ رکے تو ججوں کو بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔جنرل کیانی سے صرف یہ درخواست کی گئی کہ وہ وکلاء کے لیڈر اعتزاز احسن کو فون کرکے ججوں کی بحالی کے فیصلے سے آگاہ کردیں تاکہ لانگ مارچ ختم ہوجائے۔ اعتزاز احسن کو صدر، وزیر اعظم یا کوئی حکومتی شخصیت فون کرتی تو شاید وہ اعتبار نہ کرتے لیکن جنرل کیانی کے فون کے بعد انہوں نے لانگ مارچ ختم کردیا۔
2008ء کی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی مدت پوری ہونے کا کریڈٹ صرف جنرل کیانی کو نہیں بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بھی جاتا ہے جنہوں نے اس جمہوریت کو ڈاکٹر طاہر القادری کے حملے سے بچایا۔نواز شریف کو کئی مرتبہ موقع ملا کہ وہ حکومت کے خلاف سڑکوں پر آکر آصف زرداری کے استعفیٰ کا مطالبہ کریں لیکن انہوں نے ججوں کی بحالی کے سوا کسی دوسرے موقع پر لانگ مارچ نہیں کیا۔ ایک موقع پر صدر زرداری کافی دباؤ میں تھے۔ دسمبر 2011ء میں میمو گیٹ سکینڈل کے عروج کے دنوں میں کہا گیا کہ وہ استعفیٰ دے کر بھاگ جائیں گے اور واپس نہ آئیں گے لیکن انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا ،حکومت اور اسمبلی کی مدت کا پورا ہونا جمہوریت کی کامیابی تو ہے لیکن سیاست اور میڈیا کی کچھ نامی گرامی شخصیات کی ناکامی بھی ہے جنہوں نے دسمبر2009ء سے حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینی شروع کیں لیکن ان کا کوئی دعویٰ سچ ثابت نہ ہوا۔ پچھلے پانچ سال میں سب نے غلطیاں کی ہیں، سب کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے غلطیوں کو تسلیم کرنا اور دوبارہ غلطیاں نہ کرنے میں قوم کی نجات ہے۔