کراچی کا قبرستان

March 12, 2020

دلاور فگار

دلاور فگار

اے کراچی ملک پاکستان کے شہر حسیں

مرنے والوں کو جہاں ملتی نہیں دو گز زمیں

قبر کا ملنا ہی ہے اول تو اک ٹیڑھا سوال

اور اگر مل جائے اس پر دخل ملنا ہے محال

ہے یہی صورت تو اک ایسا بھی دن آ جائے گا

آنے والا دور مردوں پر مصیبت ڈھائے گا

مرد ماں بسیار ہوں گے اور جائے قبر تنگ

قبر کی تقسیم پر مردوں میں چھڑ جائے گی جنگ

سیٹ قبرستان میں پہلے وہ مردے پائیں گے

جو کسی مردہ منسٹر کی سفارش لائیں گے

کارپوریشن کرے گا اک ریزولیوشن یہ پاس

کے ڈی اے اب مرنے والوں سے کرے یہ التماس

آپ کو مرنا ہے تو پہلے سے نوٹس دیجیے

یعنی جرم انتقال ناگہاں مت کیجیے

کچھ مہینے کے لیے ہو جائے گی تربت الاٹ

اس کے بعد آئے گا نوٹس چھوڑ دیجے یہ پلاٹ

تربت شوہر میں اس کی اہلیہ سو جائے گی

محو حیرت ہوں کہ تربت کیا سے کیا ہو جائے گی

ایک ہی تابوت ہوگا اور مردے آٹھ دس

آپ اسے تابوت کہیے یا پرائیویٹ بس

ایک ہی تربت میں سو جائیں گے محمود و ایاز

دور ہو جائے گا فرق بندہ و بندہ نواز

شاعر مرحوم جب زیر مزار آ جائے گا

دوسرے مردوں کو ہیبت سے بخار آ جائے گا

اس سے یہ کہہ کر کریں گے اور مردے احتجاج

ہم کو ہوتا ہے تمہاری شاعری سے اختلاج

خامشی شہر خموشاں میں ہے دستور ازل

تم یہاں بھی چھیڑ دو گے غیر مطبوعہ غزل

ہم کہیں گے سو رہو آرام کرنا فرض ہے

تم کہو گے ہو چکا آرام مطلع عرض ہے

سرخیاں یہ ہوں گی ”جنگ” و ”حریت” میں ”ڈان” میں

ڈال لی ہیں جھگیاں مردوں نے قبرستان میں

رات دو مردوں نے ہنگامہ کیا زیر مزار

ایک مردہ جیل میں ہے دوسرا مردہ فرار

ایک مردہ بھاگ اٹھا تھا چھوڑ کر گور و کفن

قبر پر مرحوم کی ہے قبضۂ کسٹوڈین

برتری جاتی رہی حفظ مراتب مٹ گیا

ایک مردہ اک پولس والے کے ہاتھوں پٹ گیا

رات اک تربت پہ دو مردوں میں سودا پٹ گیا

ایک مردہ پانچ سو پگڑی کے لے کر ہٹ گیا

ہم تو سمجھے تھے ہمیں ہیں اس جہاں میں بے قرار

اس جہاں والوں کو بھی ملتی نہیں راہ فرار

صرف زندوں ہی کو فکر عیش و آسائش نہیں

اب تو اس دنیا میں مردوں کی بھی گنجائش نہیں